قرض لینا تبدیلی نہیں، پاؤں پر کھڑا ہونا تبدیلی ہوگی

Seeking more loans not a change but being self-reliant a real change

تحریر: رباب رضا 

ملکی معیشت شدید مالی مسائل کاشکار ہے۔ قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں، درآمدات کی رقم چکانی ہے، جاری اخراجات  کیلئے رقم درکار ہے، ہرحکومت کے اختتام پر ایسی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

 اس بار بھی ایسا  ہی ہے۔ ملک غیر ملکی قرضوں کے گرداب میں ہے۔ تجارتی اور جاری خسارہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔  ایسی صورتحال میں معشیت میں سدھار کیلئے کمانڈو ایکشن  کرنا ہوگا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنا کیا ہوگا؟ پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن میں  جیت نےباریاں  لگا لگا کر پاکستان کو  تباہ کرنے والوں کو منہ توڑ شکست دی ہے اور اب معاشی فرنٹ پر تمام  پرانے بتوں کے ٹوٹنے  کا انتظار عوام کر رہے ہیں۔

گزشتہ دور حکومت میں متعدد فیصلے انتہائی غلط اور ملک کے لئے نقصان دہ تھے۔ معاشی  حلقوں میں اس  بارے میں کوئی دو رائے بھی نہیں۔ اب پاکستان تحریک انصاف سے امید ہے کہ ان کے دور میں ایسے فیصلے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔

تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل اور باقی سب  پارٹیوں سے پہلے معاشی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ معاشی اصلاحات،  سستے مکانات، نوکریاں، نجکاری اور معاشی اصلاحات  پر زور دیا تھا۔

لیکن یہ کیا! جیسے جیسے  ان وعدوں کو نبھانے  کا وقت قریب آرہاہے ویسے ویسے آنے والی حکومت وہی پرانے اور آزمودہ طریقے اپنانے کی بات کرتی نظر آرہی ہے۔

آئی ایم ایف سے ایک بار پھر قرضہ لینے کی خبریں گرم ہیں۔ چین سے قرضہ، اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضہ، یعنی نواز  دور میں کھودے گئے  گڑھوں کو بھرنے کے لئے نئے گڑھے کھودے جائیں گے اورمعاملات وقتی طور پر قابو میں آجائیں  گے مگر اس کے بعد کیا ہوگیا، ایک اور نیا  گڑھا کھودا  جائے؟

نہیں یہ نہیں ہونا چاہیئے کیوں کہ یہ وہ تبدیلی نہیں جس کیلئے عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے۔  وقتی نہیں کل وقتی اور جامع پلان کی ضرورت ہے۔  ملکی معیشت بہت چل چکی سہاروں پر، اب تبدیلی صرف واقعی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے ہی آئے گی۔

اب بات کرتےہیں معاشی اصلاحات کی۔  عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کے بعد اصلاحات کی نہیں جاتیں  بلکہ وہ اپنی شرائط پر اصلاحات  کرواتے ہیں۔  اورایک اور بات  ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ غیر ملکی مالیاتی اداروں سے بیل آوٹ پیکج لینے والے ممالک سووورن فنڈ (خودمختار ذرائع آمدن) بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سووورن فنڈ کے قیام کیلئے اپنے پاس پیسہ ہونا ضروری ہے۔

دوسری  جانب ملازمتوں کے مواقع ہیں ۔ ایک  اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ بیس لاکھ افراد ملازمت کے حصول کیلئے جاب مارکیٹ میں آتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئےکم ازکم چھ اعشاریہ چھ فیصد کی شرح سے جی ڈی پی کی نمو درکار ہوگی۔

معاشی بہتری کیلئے کمانڈو ایکشن صرف بیرون ذرائع سے  کمک کا حصول نہیں بلکہ اس جنگ میں عوام کو بھی ہراول دستے کو طور پر آگے لانے کے لئے انہیں قائل کرنا ہوگا۔


معاشی ترقی کیلئے ملکی معاشی نظام میں موجود بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا، ٹیکس کا دائرہ  کار بڑھانا ہوگا،ٹیکس دہندگان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا جو  کہ کرپشن کے  خاتمے سے ممکن ہے، عوام  کو ٹیکس کی ادائیگی  پر راغب کرنا ہوگا، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی تقسیم کو منصفانہ بنانا ہوگا جب ہی کرپشن  سے نجات ملے گی اور یہ ہی ہے وہ وعدہ جو کپتان نے عوام سے کیا ہے۔



اس تحریر کی مصنفہ رباب رضا، عامل صحافی ہیں اور مختلف نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان سے ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔@rababkashif

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.