گھوڑے کی گھاس سے یاری؟

Saleem Safi under severe criticism after he criticizes Imran Khan

تحریر: کاشف فاروقی

عمران خان کا بطور وزیر اعظم قوم سے پہلا خطاب تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوا اور اس تاخیر پر مختلف تجزیہ کار قیاص آرائیاں کرتے رہے کہ اسی روز معروف صحافی سلیم صافی نے انکشاف کیا کہ خطاب میں تاخیر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے اخراجات کی چھان بین تھی۔

سلیم صافی کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی تو وزیر اعظم ہاؤس میں رہے ہی نہیں، البتہ نواز شریف اخرابات اپنی جیب سے ادا کیا کرتے تھے اور بطور ثبوت نواز شریف کے دستخط شدہ چیکس بھی عمران خان کو پیش کئے گئے۔

جب یہ انکشاف بطور خبر نشر ہوا تو عمران خان کے غیر متوقع خطاب پر حاوی آگیا، جو ان کے حامیوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے اپنے لیڈر کی پیروی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر سلیم صافی کی کردار کشی شروع کردی جو اب بھی جاری ہے۔

سلیم صافی اپنے پروگرام میں کئی سیاسی رہنماؤں سمیت نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکے ہیں جن میں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ اسی انٹرویو کے دوران سلیم صافی کے ایک سوال کے جواب میں منور صاحب نے کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان سے لڑتے ہوئے مارے گئے امریکی فوجی کو شہید نہیں کہتے۔ مگر صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منور حسن سے یہ بیان منسوب کردیا گیا کہ"امریکہ سے ڈالر لے کر لڑنے والے فوجی شہید نہیں ہوتے"۔

انٹرویو کے مقاصد شاید کچھ اور تھے لہذا اندرونی اور مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے اس مبینہ بیان کا خوب ڈنکا پیٹا گیا، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مسلح افواج کے ترجمان کے ذریعے جماعت اسلامی سے بیان پر معافی کا مطالبہ کردیا گیا۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کئے گئے بیان پر سیاسی تنظمیوں کے روایتی رویے کے برخلاف جماعت اسلامی نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے سانحہ  اکہتر پر معافی کا مطالبہ کیا اور پھر دونوں جانب معاملے پر خاموشی چھا گئی البتہ منور صاحب دوبارہ امیر جماعت کے عہدے کیلئے امیدار نہیں بنے۔

یہ واقعہ یہاں دوہرانے کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ سلیم صافی کو برا یا اچھا صحافی ثابت کیا جائے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اعلٰی ظرف مخالف کبھی ذاتیات پر وار نہیں کرتا۔ مگر اس مرتبہ سلیم صافی کا پالا قدرے مختلف لوگوں سے پڑ گیا، انہیں نہ سیاسی سمجھ بوجھ ہے اور نہ ہی صحافتی ذمہ داریوں اور اقتدار کا علم، وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ عمران خان یا ان کی جماعت کے خلاف بات کرنے اور کہنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔  ان کا لیڈر کرپشن کے خلاف ہے اور اس سے زیادہ ایماندار انسان ملک میں کوئی اور نہیں اور اگر کوئی اس کے خلاف بات تو کجا اس پر تنقید بھی کرے گا تو وہ نواز شریف کا حمایتی یا تنخواہ دار قرار پائے گا۔ 

عمران خان مخالفین کے خلاف جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں اور ان کی جماعت میں سوشل میڈیا ونگ کی جو اہمیت ہے اس سے تو شیریں مزاری سمیت ان کے اپنے کئی رہنماء اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ وہ خود اس کا شکار رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے عرف عام میں جانے اور پہچانے جانے والے کارکن (یوتھیے) کیا جانیں کہ صحافی کا کام ہی خبر دینا ہوتا ہے اور صحافی کیلئے سب سے بڑی سزا اس کی خبر کا غلط ثابت ہونا تصور کیا جاتا ہے۔ اگر سلیم صافی کا انکشاف یا خبر غلط اور بے بنیاد ہے تو وزیر اعظم عمران خان اسی روز خبر کی تردید جاری کروادیتے، سوشل میڈیا پر ذاتی نوعیت کے حملوں اور کسی کی دیانتداری پر فتوے جاری کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

یوتھیوں کا سلیم صافی کے خلاف جارحانہ ردعمل بتارہا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے۔  نئے پاکستان میں اگر کسی صحافی نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی تو اس کی عزت محفوظ نہیں رہے گی، مگر پیارے یوتھیوں صحافی کے کام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وزیر اعظم، آصف زرداری ہوں، نواز شریف یا عمران خان، خبر ملے گی تو خبر چلے گی۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.