سدھو کی اسمارٹ موو، کرتار سنگھ روٹ کھولنے کی آرمی چیف کی بات دہرا کر برادری کے دل جیت لیے
تحریر: آصفہ ادریس
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں خودعمران خان کے علاوہ
جس شخصیت نے سب سے زیادہ میڈیا کی کوریج سمیٹی وہ بلامبالغہ کوئی اورنہیں بلکہ
بھارت سے آئے مہمان سابق کرکٹرنوجوت سنگھ سدھوتھے۔
نوجوت سنگھ سدھودلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔کرکٹ میں تھے توجارحانہ بیٹنگ سے
مخالف بالرزکے چھکے چھڑاتے تھے۔ برجستہ جملوں اورپنجابی شاعری(بغیروزن
اوردیگرشاعرانہ تکلفات میں پڑے)جسے ’پوپ شاعری ‘ بھی کہا جاسکتا ہے کے بل پر ٹی
وی کی دنیا میں کامیڈی شوزمیں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔
سیاست کی نگری میں قدم رکھنے کا شوق ہوا توحکمران جماعت بی جے پی دل کوبھائی
۔بھارتی پنجاب میں بی جے پی کے سرگرم وزیررہے۔بی جے پی سے ان بن ہوئی
توکانگریس جوائن کرلی اورآج کل کانگریس کے وزیرہیں۔
توجناب یہی سدھوصاحب بڑے جگربڑے حوصلے والے اوربڑے سیانے نکلے۔عمران خان صاحب
نے اپنی تقریب حلف برداری میں تین بھارتی کرکٹرزکومدعوکیا تو کپیل دیو اورسنیل
گواسکر تو انتہاپسندوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ’ذاتی مصروفیات‘ کے بہانے ’ادھرادھر‘
ہوگئے لیکن سدھو نے ڈئیرنگ دکھاتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اورایسا کربھی
دکھایا۔
سدھو کے پاکستان آنے کا فیصلہ ایک بہت’اسمارٹ موو‘ثابت ہوا۔سرحد کے دونوں
جانب اگرمیڈیا کوریج کا کوئی سب سے زیادہ مرکز رہا وہ نوجوت سنگھ سدھو تھے۔سدھونے
فل پوائنٹس اسکورکرتے ہوئے امن ومحبت کی بات کی۔پاکستانیوں سے ڈھیرسارا پیاراورعزت
سمیٹ کر سدھوجب واپس اپنے وطن پہنچے تو توپوں کا رخ ان کی جانب تھا لیکن جناب
سدھوبھی کہاں ڈرنے والے تھے۔ترکی بہ ترکی جواب دینے میں چوکے نہیں خصوصاً آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے مختصرلیکن
گرمجوش ملاقات۔
سدھو نے کرتارصاحب کا راستہ کھولنے کی جنرل باجوہ کی بات کوہائی لائٹ کرتے
ہوئے نہایت خوبی سے سکھ برادری کی تمام ترہمدردیاں اورسپورٹ اپنے نام کرلیں اوریوں
اپنی پوزیشن کو اسٹرونگ بنا لیا۔معاملہ اب کچھ یوں ہے کہ سدھوکے مخالفین بھی یہ
جانتے ہیں کہ اب سدھواکیلے نہیں اس لئے ان پرہاتھ ڈالنا آسان نہیں رہا۔
نووجوت سنگھ سدھوخود پرتنقید کرنے والوں سے یہ تیکھے سوال پوچھتے پھررہے ہیں
کہ اگربھارت خیرسگالی نہیں چاہتا تو وزیراعظم نریندرمودی بغیر اطلاع کے نوازشریف
سے ملنے جاتی عمرہ کیوں پہنچ گئے تھے؟پاکستان میں بھارتی سفارتخانہ کیوں کھلا ہوا ہے
اورتواوربھارتی ہائی کمشنرنے عمران خان کوالیکشن میں کامیابی کے بعد بھارتی ٹیم کا
دستخط والا بیٹ کیوں پیش کیا؟ تاحال سدھوکوان کے سوالوں کا جواب موصول نہیں ہوا ہے
اور ان سوالوں کا جواب وہ بھی نہیں دے پارہے ہیں جنہوں نے سدھو پر پاکستان جانے کے
باعث غداری کا الزام لگایا ہے۔
یہ بات ماننا پڑے گی کہ سدھونے بھرپورسیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے
ناقدین کولاجواب کردیا ہے۔بھارتی حکومت کے پاس بھی سدھوکے سوالات کا کوئی جواب نہیں۔وقت
آگیا ہے کہ پاکستان فوبیا میں مبتلا بھارتی میڈیا اورمودی سرکارپاکستان کے بارے میں
اپنی پالیسی پرنہ صرف غورکرے بلکہ تبدیلیاں بھی لائیں۔کہیں ایسا نہ ہوکہ خود بھارت
کے ایک اورہندوسکھ فساد کی فضاء بن جائے اورمودی حکومت یہ کہتی دکھائی دے کہ اس
گھرکوآگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔
اس تحریر کی مصنفہ آصفہ ادریس صحافت میں وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ مختلف ٹی چینلز سے وابستہ رہی ہیں اور اب بھی ایک بڑے ٹی وی چینل میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان سے ٹوئیٹرasifaidris@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment