سیاسی منڈی
تحریر: شاہد انجم
عالم اسلام کیلئے چند روز بعد خوشی کا بہت بڑا دن آنے والا ہے۔ اسلامی ممالک میں لوگ قربانی کے کیلئے سرگرم ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ، مویشیوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ پسند کے اور دیدہ زیب جانوروں کی من پسند قیمت ادا کی جارہی ہے۔
مویشی منڈیاں بھی تقریباً ہر شہر میں قائم ہو چکی ہیں۔ کہیں گائے، کہیں بکرے سج دھج کر کھڑے ہیں تو کہیں اونٹوں پر روایتی نقش و نگار بنا کر انہیں بھی اچھی قیمت وصول کرنے کیلئے منڈی میں لایا جا رہا ہے۔
یہ ایسا موقع ہوتا ہے جس میں جانور کسی بھی نسل یا کسی بھی علاقے کا ہو، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہمارے بد ترین دشمن پڑوسی ملک بھارت سے آنے والے جانور بھی جاذب نظر سمجھے جاتے ہیں اور انہیں بھی نہلا دھلا کر قربان کیا جاتا ہے۔
محلے میں سب سے پہلے آنے والے جانو ر کو دیکھنے کیلئے ہر عمر کے لوگ آتے ہیں ۔ اسے پیار کرتے ہیں کیونکہ کہ چند روز بعد اسے قربان کردیا جانا ہوتا ہے۔ ایسے موقعہ پر بیشتر ایسی شکایات بھی موصول ہوتی ہیں کہ قربانی کے جانور کو مصنوعی اعضاء لگا کر اس کی اچھی قیمت وصول کی جاتی ہے اور ایسے جانوروں کے بیو پاری ان کی قیمت وصول کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں جبکہ خریدارلکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض افرا د قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اسے چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ اس کی خوبصورتی ماند نہ پڑ جائے ۔
مویشی منڈیوں کی یہ صورتحال دیکھ کر مجھے ملک میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کے بعد کی صورتحال یاد آگئی جس میں ہر سیاسی پارٹی ایک منڈی لگا کر بیٹھی ہے اور دعوے کر رہی ہے کہ اس کے پاس حکومت بنانے کیلئے ممبران کی تعداد مکمل ہو چکی ہے تاہم وہ اسے سامنے لانے سے گریزاں ہے۔
ممبر قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلی ہر ایک کی قیمت لگ چکی ہے اور انہیں بلا کر وقت سے پہلے ہی اعتماد کا ووٹ لیا جارہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کھوکھلے نعرے اب اصل شکل اور صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ جن کا کہنا تھا کہ ہم موروثی سیاست کا خاتمہ کریں گے، گزشتہ کئی انتخابات جیتنے والے بعض سیاستدان کرپٹ ہیں لہذا ایسے افراد ہماری ٹیم میں شامل نہیں ہو سکتے تاہم وقت بڑا بےرحم ہوتا ہے ،کس وقت کس کو گلے لگانا پڑ جائے اور بد ترین سیاسی دشمن بھی آ پ کا سب سے قریبی دوست بن جائے، سب ممکن ہے ۔
حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) دونوں ہی حکومت بنانے کے دعویدار بن چکی ہیں لیکن دونوں کو اب تک یہ یقین نہیں ہورہا کہ جن لوگوں سے ان کے رابطے ہیں اور جن کی وہ منہ مانگی قیمت بھی ادا کر چکے ہیں کیا وہ عید قرباں پر قربانی کے لئے تیار بھی ہیں؟
ریوڑ میں شامل کیے جانے والے یہ ممبران کہیں ایسا تو نہیں کل قربانی کے وقت بیماری کا بہانہ کرکے قربان ہونے سے دریغ کریں اور اگر ایسا ہو ا تو پھر کیا حالات ہوں گے، اس کے بارے میں آپ کو سوچنا ہوگا کہ آج کا دوست کل آپ کا دشمن اور آج کا دشمن کل آپ کا دوست کیسے بن جائے گا ؟ ذرا سوچئے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment