سندھ میں تبدیلی کیوں نہیں آئی؟
تحریر: کاشف فاروقی
انتخابات 2018 کے
نتائج سے اپوزیشن ہمیشہ کی طرح ناراض، عمران خان کے حامی خوش اور مخالف ووٹرز حیران
ہیں، حزب اختلاف کی جماعتوں کا الزام بہت حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ اس بار پری پول
سے زیادہ پوسٹ پول واردات کی گئی ہے۔
کراچی کی حد تک
تو میں خود گواہ ہوں کہ 21 میں سے کم از کم 10 سیٹیں ایم کیوایم، چار نشستیں ایم ایم
اے کو ملنا یقینی تھا لیکن خیر جو ہوا سو ہوا۔ ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اچھا
اور دوسرا برا اور اچھی بات یہ ہے کہ پری پول رگنگ ختم ہوئی۔
مگر لوگ اکثر پوچھتے
ہیں کہ سندھ میں تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ بلکہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔
جس زور و شور سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بنا تھا یا شاید بنایا گیا تھا
اس انداز میں عوامی حمایت کیوں حاصل نہیں کرسکا؟ جواب یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کو اچھے
یا برے میں سے ایک کو منتخب کرنے کا موقع نہیں ملا، سندھی بھائیوں نے دو بروں میں سے
کم برے کو چننا تھا، سو چن لیا۔
پیپلز پارٹی کے
مخالف جی ڈی اے میں کون کون شامل ہے؟ فنکشل لیگ، جس کے وزرا اعلٰی جام صادق علی اور
مظفر شاہ رہ چکے ہیں۔ ارباب غلام رحیم جن کے دور حکومت میں سندھ عملی طور پر دو انتظامی
حصوں میں تقسیم رہا، شہری سندھ کا انتظام گورنر ڈاکٹر عشرت العباد چلاتے تھے، ڈاکٹر
فہمیدا مرزا اور ان کے شوہر نامدار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جو پہلے بھی بدین کے بلاشرکت
غیرے حکمران تھے سو آج بھی ہیں مگر بدین کے لوگوں کی حالت بدلنی تھی نہ بدلی، ایاز
لطیف پلیجو سمیت دیگر قوم پرست تو ماضی میں بھی کبھی سندھ کے لوگوں کا اعتماد حاصل
نہیں کرسکے۔ تو پھر یہ سوچا بھی کیسے جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کو سندھ کے عوام پیپلز
پارٹی کے مدمقابل منتخب کرلیں گے۔
عمران خان نے تو
انتخابی مہم کے دوران ہی اعتراف کرلیا تھا کہ تحریک انصاف سندھ میں تبدیلی کیلئے تیار
نہیں، شاید ان کو پتہ تھا کہ ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی اور حلیم عادل شیخ مل کر بھی
سندھ میں متبادل قیادت فراہم نہیں کرسکتے۔ مگر یہ بات سچ ہے کہ حلیم عادل شیخ نے خان
صاحب کی توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی ہے اور وہ تحریک انصاف کی اس کلاس سے تعلق
بھی نہیں رکھتے جنہیں عرف عام میں بگرز کہا جاتا ہے۔ شاید جب ہی ان کا نام سندھ میں
اپوزیشن لیڈر کیلئے لیا جارہا ہے۔
پیپلز پارٹی ہمیشہ
سے فاخر رہی ہے کہ اسے لوگوں کو سب سے زیادہ سرکاری ملازمتیں دینے کا اعزاز حاصل ہے
چاہے یوسف رضا گیلانی جیل جائیں یا پھر پی آئی اے کو پٹہ پر بیچ دیا جائے، ملازمتیں
بٹتی ہیں تو ووٹ ملتے ہیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے۔
ایسا نہیں کہ پیپلز
پارٹی نے الیکشن 2018 میں جی ڈی اے کے مقابلے اور کامیابی کیلئے صرف مراد علی شاہ کی
ڈیڑھ سالہ کارکردگی اور عوامی حمایت پر تکیہ کر رکھا تھا، ایم کیو ایم کے بھرپور تعاون
سے من پسند نگراں وزیر اعلٰی کو لایا گیا تھا۔
کراچی کی سڑکوں
پر ٹریفک کا نظام چلاتے نئے نویلے کانسٹبلز تو کم و بیش سب نے دیکھے ہوں گے مگر کتنوں
نے غور کیا ہے کہ یہ نفری ہزاروں کی تعداد میں اچانک انتخابات سے قبل کراچی کی سڑکوں
پر لائی گئی ہے؟ کب بھرتی ہوئے؟ کس نے بھرتی کیئے؟ اور یہاں کیسے آئے؟ ان میں سے اکثریت
کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ کس علاقے کو کون سے سڑک جاتی ہے۔ یہ ٹریفک کانسٹبلز تو سڑکوں
پر کھڑے ہیں لہذا نظر آتے ہیں، اور کس کس محکمے میں کیا کچھ ہوا ہے کون جانے؟
ان ہزاروں ٹریفک
کانسٹبلز میں ہر ایک کا خاندان ہوگا جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار بیٹے
کو سرکاری ملازمت ملنے پر بہت خوش ہوگا۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment