فواد چودھری کو پارٹیاں بدلنے میں ملکہ حاصل ہے

Fawad Chauhdry, Information Minister, Pakistan

تحریر: کاشف فاروقی

تحریک انصاف کی نومولود حکومت ابتداء میں ہی مشکل میں آگئی ہے لیکن اس کی وجہ حزب اختلاف یا ورثے میں ملے مسائل نہیں ہیں۔  حزب اختلاف تو خود آپس کی کھینچا تانی میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی بھنور میں پھنسے آصف زرداری کی ناؤ کنارے لگانے کو صدارتی انتخاب کیلئے پرانے دوست مولانا فضل الرحمان سے سینگھ پھنسا بیٹھی ہے اور ملکی مسائل پر شاید کسی کی توجہ ہے ہی نہیں۔

خود عمران خان کے قول و فعل میں تضاد اور ان کے ہمنواؤں کی بڑھکیں حکومت کیلئے مشکلات بڑھا رہی ہیں۔  ابھی وزیراعظم کو امریکی سیکریٹری داخلہ کے ٹیلی فون سے برپا ہونے والا طوفان ہی نہ تھما تھا کہ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر پر سفر  نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا جس پر  وزیر اطلاعات فواد چودھری کا بیان سونے پر سہاگا ثابت ہوا۔ موصوف وزیر نے فرمایا کہ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے  سفر پر صرف پچپن روپے کلو میٹر خرچ آتا ہے۔ بس پھر کیا تھا منہ سے نکلی بات پرائی ہوگئی۔ اپوزیشن رہنماؤں نے پھر بھی ہاتھ ہولا رکھا، سوشل میڈیا   پر تو اب بھی بھد اڑ رہی ہے۔

جہلم سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور وکیل فواد چودھری نے بہت تیزی سے سیاست کا لمبا سفر انتہائی کم مدت میں طے کیا ہے۔ وزیر محترم نے دوہزاردو میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کی نشست کیلئے جہلم سے انتخاب لڑا اور ایک سو اکسٹھ ووٹ حاصل کرسکے۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم  لیگ کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تو فواد چودھری اس کے میڈیا کوآرڈینٹر مقرر ہوئے اور  دوہزارگیارہ تک ہر فورم پر پرویز مشرف کا جم کے دفاع کیا لیکن پھر جنوری دوہزاربارہ میں پرویز مشرف سے بے رخی اختیار کی اور اپریل میں پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے۔ اب پتہ نہیں کہ انہوں نے جس دن پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اس دن یکم اپریل تھی کہ نہیں؟

فواد چودھری کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنا مشیر خاص برائے اطلاعات مقرر کرکے کابینہ میں شامل کرلیا اور ان کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں فراغت کے بعد راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے فواد چودھری کو سیاسی معاملات کیلئے اپنا خصوصی معاون بناکر ساتھ رکھا لیکن حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی فواد چودھری پیپلز پارٹی سے نکل بھاگے۔

دوہزارتیرہ کے الیکشن میں مسلم لیگ قائد اعظم سے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔  انہیں 34 ہزار ووٹ تو ملے لیکن کامیابی ہاتھ نہ آئی اور اسی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پربھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس نشست پر صرف بیاسی ووٹ ملے یعنی اس بار جہلم کے لوگوں نے فواد چودھری کو پہلے سے زیادہ شدت سے مسترد کردیا۔

فواد چودھری گرتے پڑتےدوہزارسولہ میں تحریک انصاف میں جاپہنچے یا پہنچا دیئے گئے۔ جہلم میں دوہزارسولہ  کے ضمی انتخاب میں فواد چودھری نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی۔ نتیجہ تو ماضی سے مختلف نہیں رہا مگر ملنے والے ووٹوں کی تعداد چوہتر  ہزار سے زائد تھی۔

فواد چودھری کی شاید تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ضرورت تھی لہذا عمران خان نے چوہتر ہزار ووٹوں کو دیکھتے ہوئے انہیں پارٹی ترجمان مقرر کردیا اور فواد چودھری نے خان صاحب کے افکار کی ایسی ترجمانی کی کہ مسقبل روشن کرلیا۔

فواد چودھری صاحب آپ اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں مگر یاد رکھیں ہر عروج کو زوال ہے اور جو جتنی تیزی سے عروج پاتا ہے اسی رفتار سے واپسی بھی ہوتی ہے پھر جن میڈیا پرسنز کی وزیر اعظم سے ملاقات کرائی ہے ان میں تو اکثریت گھس بیٹھیوں کی ہے یہ بھی آپ اور آپ کی حکومت کے زوال کو روک نہیں پائیں گے۔

جناب عمران خان سے بھی درخواست ہے کہ اپنے جہاز میں گھس بیٹھے چوہوں کا کچھ کریں کیونکہ جب جہاز ڈوبتا ہے تو چوہے سب سے پہلے نکل بھاگتے ہیں اور آپ کے جہاز میں موجود چوہے تو بھاگ دوڑ کے عادی ہیں کیونکہ یہ جس کے دوست ہوئے  اس کو دشمنوں کی ضرورت پڑتی نہیں ہے۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.