ننھے عمر اور اس کے ماما پاپا پر قیامت گزر گئی، ہے کوئی سننے والا ؟
تحریر: محمدآصف
وہ گھر جہاں کبھی
ننھے عمر کی ہنستی کھیلتی آوازیں گونجتی تھیں، جہاں ننھی ننھی فرمائشوں
کی رونق تھی، اب وہاں اداسی کے ڈیرے ہیں، اب وہ کبھی اپنے ہاتھوں سے لکھ نہیں
سکے گا، کھلونوں سے کھیل نہیں سکے گا، کیونکہ وہ
آٹھ سالہ معصوم بچہ کے الیکٹرک کی بدترین اور سنگین غفلت کے باعث اپنے دونوں
ہاتھوں سے محروم ہوگیا ہے۔ پچیس اگست سے ایک
ہفتے سے زائد وقت گزر گیا، عمر کراچی کے سول
اسپتال میں پڑا ہے۔
بیانات دیئے جارہے ہیں، ہمدردیاں جتائی جارہی ہیں لیکن
علاج کے لئے کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس
میں میرا بھی برابر کا قصور ہے۔ میں پرلے درجے کا منافق ہوں، مجھ سے بڑا کوئی ریا کار
نہیں، میں نے صرف مگرمچھ کے آنسوبہائے۔ کہیں
حکمرانوں کے دروازے پر بھیک نہیں مانگنے گیا کہ بچے کو فوری طور پر بیرون ملک اعلٰی
سے اعلٰی علاج کے لئے بھیجو اور کچھ نہیں تو
ایک رات آخری پہر میں اٹھ کر بارگاہ
الہٰی میں ننھے عمر کی تکلیف میں آسانی کے لئے دعا کرسکتا تھا۔دعائیں کرتا رہتا۔ یہ بھی نہیں کررہا۔
کیوں کروں میں یہ
سب کچھ؟ یہ لخت جگر میرا تو نہیں ہے۔ اگر میرے بچے پر ایسی قیامت گزرتی تو کیا میں
ایسے ہی کرتا؟ نہیں کیوں کہ میں تو خودغرض ٹھہرا۔ اپنے بچے کی ہلکی سی تکلیف پر تڑپ
اٹھتا۔ اللہ نہ کرے میرے بچے کے ساتھ ایسا ہوتا تو میں آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ ہر
دروازہ کھٹکھٹاتا۔ کسی پل چین سے نہ بیٹھتا لیکن ننھے عمر کے لئے دکھاوے کے دو بول کےسوا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔
حسب روایت چند روز
یا چند ہفتے تک میڈیا میں عمر کے ساتھ بیتنے والے سانحے کی خبریں آتی رہیں گی۔ انتظامیہ
(کے الیکٹرک کی اور سرکار کی) بیانات جاری کرتی رہے گی۔ پھر جو عام طور پر ہوتا ہے
وہی ہوگا۔ ننھا عمر ہوگا۔روز کے دُکھ ہوں گے۔ اس کے ماما اور پاپا ہر روز روئیں گے۔ زندگی بھر ان کے نصیب میں در در کے دھکے ہوں گے۔ وہ کبھی ایک دروازے پر جائیں گے کبھی دوسرے دروازے
پر۔ وہی طفل تسلیاں ہوں گی۔ دعا ہے ایسا نہ
ہو لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے دل میں یہی خدشات ہیں۔
کے الیکٹرک کی اعلٰی
انتظامیہ کو مکافات عمل سے ڈرنا چاہیئے۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اُن کے بچوں کے ساتھ
بھی ایسا ہی ہو۔ یہ ہمارے اسلاف کی تعلیمات نہیں لیکن ایک دن آنا ہے جب حساب ہوگا
ذرے ذرے گا ۔ اس دن سے ڈرو۔ یہاں تو ننھےعمر کی غریب فیملی کو بیوقوف بنالوگے۔ دباؤ
ڈال لو گے، کیس چلا تو بڑے سے بڑا مہنگا وکیل
کر کے نکلنے کی کوشش کرو گے لیکن کب تک بچو گے؟
ذرا سا خوفِ خدا
کا مظاہرہ کرو، فوراً سے پہلےعمر کو امریکا یا جرمنی علاج کے لئے بھجواؤ۔مصنوعی ہاتھ لگوا کر دو، کہانیاں نہ سناؤ۔ نمبر دو: کم
سے کم پانچ کروڑ روپے ننھے عمر کے والدین کو دو۔ یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسا
ہے ۔ یہ ازالہ نہیں۔ یہ رقم نہ کوئی
امداد ہوگی نہ نقصان کی تلافی، کیونکہ جتنا نقصان آپ لوگوں کی سنگین غفلت سے اس بچے
کا ہوگیا ہے اس کا کوئی بدل نہیں۔ پورے شہر
میں دہشت پھیل گئی ہے۔نمبر تین: فوری طور پر عمر کی تاحیات کفالت کا
معاہدہ کرو (سی ای او کے الیکٹرک کے بچوں جیسی کفالت) جس کی کاپی سپریم کورٹ، وزیر
اعظم اور آرمی چیف کے پاس رکھوائی جائے۔
اس کے ساتھ آئندہ ایسے واقعات سے بچاؤ کے لئے فی الفور میڈیا
آگہی مہم چلاؤ۔ عمر کا سانحہ تو
احسن آباد میں پیش آیا۔ کے الیکٹرک
کی غفلت سے سرجانی کے گیارہ سالہ حارث کےبھی ہائی وولٹیج تار سے کرنٹ لگنے
سے دونوں ہاتھ ضائع ہوگئے وہ بھی زیر علاج ہے۔اس کوبھی عمر جیسا علاج، رقم دی جائے اورکفالت کا بندوبست کیا جائے۔ہمیں نہیں
معلوم کہ اتنے اذیت ناک واقعات کے بعد کے الیکٹرک
کی اعلٰی انتظامیہ کو نیند کیسے آرہی ہوگی۔ ان میں ذرا سی بھی انسانیت زندہ ہے تو
کراچی سے اربوں روپے کمانے والوں کے لئے یہ اخراجات کچھ بھی نہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر نے
اپنی رپورٹ میں ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ احسن
آباد میں کے الیکٹرک کا ٹرانسمیشن سسٹم بوسیدہ اورہائی وولٹیج تار بھی پرانے تھے۔
ہائی وولٹیج تاروں کو بار بار پیوندلگاکربجلی دی جارہی تھی۔ بچےکے معذور ہونے کا ذمہ
دار کے الیکٹرک ہی ہے۔
ایک سال پہلے ایک
بچہ 8سالہ اذہان 24اگست 2017 کو ماڈل کالونی میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا تھا مگر
ایک سال گزرنے کے بعد بھی کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج نہ ہوا۔ نقصان کے ازالے کے
مقدمے میں بھی تاریخ پہ تاریخ ملتے سال گزرگیا۔ ورثاء کو تاحال انصاف نہیں مل سکا ۔ ان تمام سانحات
پر شہریوں کا کہنا ہے آرمی چیف اور
وزیر اعظم سخت ایکشن لیں۔ چیف جسٹس پاکستان سوموٹو مقدمہ چلائیں۔ کے الیکٹرک شرافت سے باز آنے والی نہیں۔
اس تحریر کے مصنف محمدآصف، عامل صحافی ہیں۔ یہ مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد آصف سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment