سندھ پولیس میں بھی قیدو!

Sharjeel Memon's liquor bottles replaced with honey and olive oil

تحریر: شاہد انجم

قدیم زمانے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں اہم کردار نائی کا ہوتا تھا رشتے کرانا، دلہا کی گھوڑے کی لگام پکڑ کر دلہن والوں کی دہلیز تک پہنچانا، دلہن کی رخصتی پر جہیز کی گنتی اور بارات کو واپس لے کر آنا، یہ سارے کام ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے تھے۔

اس زمانے میں دلہن کی ڈولی کو چار کہار اٹھاتے تھے اور کئی کئی کلو میٹر تک کاندھوں پر اٹھا کر منزل تک پہنچانا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ محبت کی شادیاں اس دور میں بھی ہوا کرتی تھیں دلہن کی تبدیلی با آسانی ہو جاتی تھی۔ کوسوں دور کے سفر میں رات بھی آتی تھی اور دن کی روشنی بھی۔ ڈولی اٹھانے والے کہار اکثر گنگناتے تھے اور دلہا کے ساتھ میراثی اس کے سہرے گاتے تھے۔  

دور سے اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ بارات گزر رہی ہے لیکن چاچا قیدو کا کردار اس دور میں بھی نمایاں تھا، دلہن کو نشہ آور چیزیں دینے کی کہانیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ دلہا جب بارات لے کر واپس گھر پہنچا تو پتا چلا کہ جس لڑکی سے اس کا نکاح پڑھایا گیا وہ کوئی اور تھی اور حجلہ عروسی میں دلہن کے چہرے پر شادی کی چمک ہے نہ زبان میں مٹھاس، نہ بڑوں کا لحاظ نہ چھوٹوں کیلئے پیار اور نہ ہی وہ تمیز۔ یہ سب دیکھ کر گھر کی خواتین میں کانا پھوسی شروع ہو جاتی تھی۔

بعض لوگوں کے ساتھ تو ایسا بھی ہوا کہ کہارو کی ڈولی میں بیٹھ کر دلہن کی جگہ منزل مقصود پر پہنچنے والی دلہن نہیں خواجہ سرا تھا جسے دیکھ کر خاندان میں بڑی بڑی رنجشیں پیدا ہوئیں، دھوکا دہی کے الزامات لگے نتیجہ یہ ہوا کہ رشتہ کرانے والوں کی بے عزتی تو اپنی جگہ، دو خاندانوں میں ہمیشہ کے لئے دشمنی کا آغاز ہو گیا۔

یہ تمام کہانیاں سن کر اگر آج کے دور میں دیکھا جائے تو دھوکا دہی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ اب بہتر سہولیات اور جدید نظام متعارف ہو چکا ہے مگر آج بھی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی روش تو قائم ہے۔ چند روز قبل قاضی وقت نے ایک اسپتال میں قائم سب جیل کا اچانک دورہ کیا جہاں اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ملزم علاج کے بہانے کافی عرصے سے وہاں داخل تھا۔ 

دورے کے دوران ممنوع اشیاء (شراب کی بوتلیں) بر آمد ہوئیں اور فوری طور پر اعلیٰ حکام کو اس بارے میں مطلع کیا گیا جس کے بعد سرکاری مشینری نے اپنا کام شروع کیا اور ملزم کے کہاروں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ملزم کے پرانے کئی وفاداروں  نے بھی اس میں اہم کرار ادا کیا اور ملک کے سب سے بڑے قاضی کو غلط ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

شاید انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے کیمرے کی آنکھ سب دیکھ رہی ہے جو تم کرنا چاہ رہے ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔ مگر اس گندی سازش میں قانون کے رکھوالوں نے بھی اپنی وردی کو کیچڑ سے گندا کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد اعلیٰ سطح پر یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔

سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج حاصل کرلی گئی جس سے اس سازش کو نا کام بنانے کے لیے ٹھوس ثبوت حاصل ہوئے جبکہ پولیس نے دو ہی روز کے بعد ایک اور کارروائی میں اداکارہ میرا کو تو چھوڑ دیا مگر شراب کے نشے میں دھت علی سلیم عرف بیگم نوازش علی جو کہ خواجہ سرا  کا روپ دھارے پھرتا ہے کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا اور اپنی کارکردگی کو سستی شہرت دلوانے کے لیے میڈیا پر خبر نشر کرادی۔

پولیس کی اس حرکت پر میرا قانون کے رکھوالوں سے سوال ہے کہ اس ملک میں کوئی مرد جرم کر رہا ہے نہ ہی عورت تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جرائم میں صرف خواجہ سرا ہی ملوث ہیں جنہیں گرفتار کر کے آپ خود کو قانون کے رکھوالے ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔


کراچی پولیس کے سربراہ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی مدد سے شہر کو دہشتگردوں سے پاک کر دیں گے جس کا آپ ان کاروائیوں سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جبکہ نئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پولیس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔ پولیس افسران شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ جن کے خلاف کارووائی کا کہا جارہا ہے آخر کار حکومت تو ان ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل ان کا کیا ہوگا۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.