سیانے کہتے ہیں تولو پھر بولو

Pakistan Tehrik Insaf Government asks Mian Atif to step down

تحریر: کاشف فاروقی

پاکستان تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کی جانب سے میاں عاطف کی معیشت سے متعلق کمیٹی میں نامزدگی، پھر اس پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل، اور نامزدگی کی واپسی، اور پھر اس پر بحث برائے بحث کا آغاز۔ ان تمام معاملات کے نتیجے میں کچھ حقائق اور معلومات البتہ ضرور سامنے آئیں۔

پکڑ دھکڑ کی ٹیم کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی صرف خود کو چیمپین سمجھتا ہے، اور باقی سارے اس کی نظر میں گھسیارے ہوتے ہیں لہذا ایک ساتھ ہوتے ہوئے بھی بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔

 وفاقی وزیر اطلاعات کو دیکھئے اتنی جاں فشانی سے نوکری کررہے ہیں کہ گزشتہ دو ڈھائی سال سے آئینے میں اپنا بھی چہرہ دیکھتے ہیں تو عمران خان ہی نظر آتے ہیں، عمران خان جو کچھ کرتے ہیں صرف وہ  درست ہے اور اگر دوسرا کوئی وہی کام کرے تو اس سے زیادہ بڑا غلط کام کوئی نہیں۔

وزیر اعظم کی جانب سے عاطف میاں کو ملکی معیشت کی درستگی کیلئے بنائی گئی کونسل کا رکن نامزد کرنے پر نئی بحث کا آغاز ہوا جس کو وزیر اطلاعات نے اپنی شعلہ بیانی سے دوام بخشا۔  فواد چودھری  نے کہا کہ عاطف میاں معیشت سے متعلق کمیٹی کے رکن ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے نہیں، اس معاملے پر زیادہ شور و فغاں سوشل میڈیا پر مچا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایسے ہی افراد حاوی ہیں جو روشن خیالی کے حامی ہیں اور مذہب کو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ گردانتے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے جس انداز میں میاں عاطف کی نامزدگی کا دفاع کیا اس سے دو چیزیں واضح ہوگئیں۔ وزیر موصوف کو علم ہی نہیں ہے کہ غیر مسلم اور قادیانیوں کا معاملہ الگ الگ ہے۔کئی غیر مسلم پاکستان میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بڑبولے فواد چودھری کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ ریاست پاکستان کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں مگر قادیانی عقیدہ کے مطابق قادیانی خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ لہذا قادیانی ختم نبوت کے علاوہ آئین پاکستان کے بھی منکر ہیں۔

میری اطلاعات کے مطابق عاطف میاں مسلمان تھے اور امریکا جاکر مرتد ہوئے جبکہ وہ قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ مرزا مسرور کے مشیر بھی رہے ہیں اور پاکستان میں ختم نبوت کے قانون کے خاتمے کیلئے مہم بھی چلا چکے ہیں لہذا اگر وہ دنیا کے آخری ماہر معاشیات بھی ہوں تو  بھی ان پر اعتراض تو جائز ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ معاملے کو بغیر سوچے سمجھے بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی عاطف میاں کی تعیناتی پر حکومتی یا ان کی حمایت میں مصروف ہیں، اور ان کی کمیٹی میں شمولیت پر اعتراض کرنے والوں کو مخلتف انداز میں ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشیاء استعمال کرنے کے طعنے دیئے جارہے ہیں جیسے پاکستانی منت سماجت کرکے ملٹی نیشنل کمپنوں کو یہاں لائے ہوں، یہ کمپنیاں کاروبار کرنے آئی ہیں اور حکومت نے انہیں کاروبار کی اجازت دینے سے قبل ان کے مالکان کے بارے میں عوام کو بتایا نہیں تھا۔

اور ویسے بھی دنیا کہتی ہے کہ عاطف میاں بہت ذہین اور باصلاحیت انسان ہیں تو ان کا مقابلہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے ٹوتھ پیسٹ یا سافٹ ڈرنک سے تو نہیں کیا جاسکتا نا؟

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے آسان ترین مثال یہ ہے کہ اگر کسی ملک کا سفر کرنا ہو تو سب سے پہلے پاسپورٹ درکار ہوتا ہے جس پر اس ملک کا ویزا لیا جاسکے، پھر ویزے کیلئے تمام تر لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی ضروری نہیں کہ ویزا مل ہی جائے بالکل اسی طرح ختم نبوت کو تسلیم کئے بغیر کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا مگر قادیانی عقیدہ ختم نبوت تسلیم کئے بغیر مسلمان رہنا چاہتے ہیں، اب ان کے حمایتی بتائیں، یہ مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.