مجھے ڈر لگتا ہے
تحریر: شاہد انجم
اسد بیٹا جلدی اٹھ
جاؤ اسکول جانا ہے، ماں آج میرا اسکول جانے کا دل نہیں چاہ رہا، بیٹا سستی نہیں کرتے
ہاتھ منہ دھولو، ناشتہ کرو اور زم زم کو بھی آواز دو وہ بھی اٹھ جائے کیونکہ کالج کا
وقت ہو رہا ہے۔ مما مجھے نہیں جانا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
اتنی دیر میں زم
زم آنکھیں ملتے ہوئے ماں کے پاس آن پہنچی تو ماں نے کہا زم زم بیٹا تیار ہو جاؤ کالج
کا وقت ہو رہا ہے۔ زم زم نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہا ماں میرا کالج جانے کو دل
نہیں چاہتا، پتا نہیں کیوں مجھے عجیب سا خوف رہنے لگا ہے اور کل میں نے ٹیلی وژن
دیکھا تو میرا خوف مزید بڑھ گیا ہے۔
ایسی کیا بات ہے
جو آج بچے اسکول جانے سے منع کر رہے ہیں اور انہیں ایسا کیا خوف ہے، یہ بات زبیدہ اپنے شوہر سے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی
کر رہی تھی کافی دیر تک اسی بحث کے بعد شوہر کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور اس نے اپنے جواب میں کہا کہ شاید یہ خوف اب میرے دل میں بھی بیٹھ رہا ہے۔ دو روز سے جب میں اپنے
دفتر جانے کے لیے نکلتا ہوں تو مجھے بھی ایسا لگتا ہے کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے
کچھ چہرے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو میرا بھی گھر سے نکلنے کو دل نہیں چاہتا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
زبیدہ، شوہر اور
بچوں کی باتیں سن کر اپنے ہنستے بستے گھر کو ایک ویران حویلی کی طرح دیکھ رہی
تھی؟ شہر میں ایسا کون سا خوف طاری ہے جس سے میرے بچے اور شوہر اتنے خوف زدہ ہیں؟ کیا
شہر میں قانون کے رکھوالے موجود نہیں؟ کیا ہماری حفاظت پر مامور لوگ سو رہے
ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کون سا ڈراؤنا خواب ہے جو ہمیں زندگی کی طرف جانے والے
راستے پر روک رہا ہے۔
شاید زبیدہ ایک
گھریلو خاتون ہے اور وہ باہر کے ماحول سے بالکل ناواقف ہے اور شاید وہ یہ سب جاننا
بھی نہیں چاہتی تھی مگر وقت اور حالات نے اب ممکنہ طور پر اسے یہ سوچنے پر مجبور کر
دیا تھا کہ یہ وقت کی سنگینی کا تقاضا ہے معاملے کی گہرائی تک جایا جائے۔
رات کے کھانے پر اس نے اپنے بچوں
اور شوہر سے جب یہ دریافت کیا تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ شاید آپ دو تین دن سے
ٹیلی وژن نہیں دیکھ رہیں؟ اگر آپ دیکھ رہی ہوتیں تو آپ کو پتہ ہوتا کہ موجودہ حکومت
میں بھی وہی چہرے ہیں جو اس وقت بھی ایک
آمر کی حکومت میں تھے جب شہر قائد میں بارہ مئی اور چار اپریل جیسے سانحات رونما ہوئے
تھے۔ اس وقت درجنوں لوگوں کا شاہراہوں پر قتل عام کیا گیا تھا اور اس وقت کے
حکمران نے مکا لہرا کے کہا تھا کہ دیکھی ہماری طاقت، ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت جو
تبدیلی کے دعوے کرتی تھی، تبدیلی تو نہیں لا سکی مگر کسی نہ کسی طور قتل کے ذمہ
دار وہی چہرے پھر عوام پر مسلط کردئیے گئے۔ شاید ہمارے موجودہ حکمران اس
وقت کو بھول گئے جب کراچی کی شاہراہوں پر دن دہاڑے قانون کے رکھوالوں سے اسلحہ چھین
کر نہتے شہریوں کو قتل کیا گیا۔
آپ کا تو یہ دعوٰی
تھا کہ آپ بے روزگاری ختم کریں گے، تعلیم عام کریں گے، قانون کی پاسداری ہوگی، ملک
میں خوشحالی آئے گی، قتل عام کا خاتمہ ہو جائے گا، کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوگا،
ملک میں اسلحہ صرف حفاظت پر مامور اداروں کے پاس ہوگا، تو جناب اعلٰی اگر آپ نے اسی
ٹیم سے یہ میچ کھیلنا ہے تو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اگر اسی طرح
کے فیصلے اس قوم پر مسلط کیے گئے تو یاد رکھیے پاکستانی قوم معصوم ضرور ہے مگر اپنے
اوپر ہونے والے ظلم اور ظالموں کو کبھی نہیں بھولتی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ قوم آئندہ
عوامی فیصلے میں آپ کو مسترد کردے اور پھر آپ کو پچھتاوا ہو کہ جو فیصلے آپ نے کیے
تھے وہ سراسر غلط تھے۔ ذرا سوچیئے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment