موچی کی بہو

Fawad Chaudhry briefing about one month performance of PTI government

تحریر: شاہد انجم

بابا گاما بہت بزرگ ہوچکا تھا۔ جنوری کے مہینے کا آخری ہفتہ، سخت سردی تھی، لحاف سے منہ باہر نکال کر آواز دی ارے سنتی ہو، جس پر جواب ملا مجید کے ابا آرہی ہوں، تھوڑا سا پانی گرم کرنا تھا کہ جب آپ اٹھ جائیں تو ہاتھ منہ دھو لیں۔

چند لمحوں کے بعد شریفاں آئی اور اس نے کہا کہ آپ اٹھ جائیں پانی گرم ہوگیا ہے پھر کچھ کھانے کے لئے دوں۔ بابا گاما ڈنڈے کا سہارا لے کر واش روم تک گیا اور واپس آکر کہا کہ گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہے، بچے کہاں ہیں، جس پر شریفاں بی بی نے کہا کہ بیٹی کی ابھی شادی کی ہے گھر میں رش تھا مہمانوں کا، وہ چلے گئے ہیں اس لئے آپ کو سناٹا لگ رہا ہے۔ مجید اپنے سسرال گیا ہوا ہے بہو کو لینے۔ باقی بچے چھت پر بیٹھے دھوپ تاپ رہے ہیں۔ مجید نے کہا تھا کہ وہ شام تک بہو کو لے کر واپس آجائے گا۔

بابا گاما ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کے آنگن میں اپنے روایتی حقہ کے کش سے لطف اندوز ہورہا تھا اور مائی شریفاں دوپہر کے کھانے کی تیاریوں لگ گئی تھی۔ چند گھنٹوں بعد ناک پر ڈوپٹہ ڈالے بہو نے آکر سلام کیا۔ تھوڑا وقت ساس سسر کے ساتھ گزارنے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی۔

رات بہت شدید سردی ہونے کے باعث گھر میں بہت سناٹا تھا۔  سب لوگ صبح ہونے اور سورج کی کرنیں نکلنے کا انتظار کررہے تھے البتہ گھر میں فجر کی اذان کے بعد سے ہی برتن بجنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں جس پر شریفاں نے  شوہر سے کہا کہ ہماری بہو کتنی سمجھدار لایا ہے جو صبح سویرے ہی اٹھ جاتی ہے اور گھر کے کام کاج میں لگ جاتی ہے۔

بابا گاما یہ بات سن کر خاموش رہا اور بیٹے مجید کو آواز دی، بہو کی طبیعت خراب ہے کیا جو جلدی اٹھ گئی ہے۔ بیٹے نے کہا کہ آپ کی بہو اس لئے نہیں سو سکی کہ گھر میں چمڑے کی بو آتی ہے۔ سسر نے بہو کو بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہے جس پر بہو نے کہا کہ ابو گھر بہت گندا ہے لگتا ہے کئی برسوں سے صفائی نہیں ہوئی۔

بابا گاما زندگی بھر چمڑے کو کوٹ کر بچوں کے پیٹ کی آگ کو بجھاتا رہا تھا۔ انہوں نے بہو کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ موچی کا گھر ہے، ہمارا چمڑے کا کاروبار ہے، بو تو آئے گی، جس پر بہو احتراماً جواب نہ دیتے ہوئے کمرے سے چلی گی۔

شادی کو ایک ماہ گزرا تو بہو کی ناک پر ڈوپٹہ نہیں تھا اور وہ سسر کے سامنے آئی جسے دیکھ کر سسر نے کہا کہ اب تو آپ کو بو نہیں آتی جس پر بہو نے کہا کہ میں نے گھر کی اتنی صفائی کی ہے کہ اب بو ختم ہوگئی ہے۔ سسر نے بہو کو کپوں میں چائے انڈیلتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ بیٹی گھر پہلے جیسا ہی ہے بس اب تمھارا دماغ بھی ہمارے جیسا ہی ہوگیا ہے اس لئے تمھیں بو نہیں آتی۔

بابے گامے کی اس داستان کو سن کر مجھے موجودہ حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی یاد آگئی۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ماہانہ کارکردگی پر بڑھکیں مارتے ہوکہا کہ گزشتہ تینتیس سال میں جو نہ ہوسکا وہ ہم نے ایک ماہ میں کردکھایا۔

جناب عالی، آپ نے بھی وہی کیا ہے جو آپ سے پہلے والی حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ مہنگائی کا پہاڑ غریب عوام پر گرا دیا۔ کتنے بے روز گاروں کو روز گار ملا، کاش وہ بھی بتایا جاتا۔ لگتا تو ایسا ہے کہ آپ بھی بابا گامے کی بہو کی طرح ہو، جسے پہلے دن تو بہت بو آتی تھی اور ایک ماہ گزرنے کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے جبکہ وہ کچھ بھی ٹھیک نہ کرپائی تھی بلکہ اسی ماحول میں رنگ چکی تھی۔

خدرا را اس ماحول میں رنگنے کی بجائے کوئی کارکردگی دکھائیں، غلط بیانی سے کام لے کر قوم گمراہ نہ کریں۔ اس جانب بھی ذراسوچیئے!



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.