باہمت پختون پروین عثمان گل، بزنس وومن، ٹیچر، سوشل ورکر، خواتین کے لئے مثال
انٹرویو: ابو حماد
وہ ٹرک میں لوڈ ہوتے ہوئے ماربل کا جائزہ لے رہی تھیں، کئی پیسز پراعتراض کیا
اور انہیں الگ کرکے گاڑی سے اتروایا۔ مزدوروں کو ہدایات بھی دے رہی تھیں۔
عبایا پہنے یہ جواں سال خاتون پروین عثمان گل ہیں جوحالیہ جنرل الیکشن میں سندھ
اسمبلی کے حلقہ
ایک سو بیس سےآزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتری تھیں۔
انتخابی مہم کے دوران مختلف نیوزچینلز پر ان کے انٹرویوز دیکھنے کا اتفاق ہوا
تھا لیکن میرا ارادہ تھا کہ گہما گہمی ختم ہونےکے بعد اس بہادر خاتون سے ضرور
ملاقات کروں گا۔ مصروفیت کے سبب یہ وقفہ کچھ زیادہ طویل ہوا۔ مجھے جس چیز نےان کی
طرف متوجہ کیا تھا وہ ان کا خاندانی پس منظر اور نسبتاً پسماندہ علاقے سے ان کا
الیکشن لڑنا تھا جہاں سے ماضی میں کسی خاتون نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔
الیکشن کے کافی دنوں بعد ان سے رابطہ ہوا اور ملاقات طے ہوئی، لیکن میں
اس وقت حیران رہ گیا جب انہوں نے ملاقات کے لیے منگھوپیر روڈ پر واقع ایک ماربل
فیکٹری میں بلایا۔ طےشدہ وقت پر میں وہاں موجود تھا اور کچھ ہی دیر میں پروین
عثمان خود کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہاں پہنچیں۔ معذرت کرتے ہوئے پہلے کام کا جائزہ
لیا، مزدوروں کو ہدایات دیں اور پھر میری طرف متوجہ ہوئیں۔
اگرچہ میں ان سے سیاست میں آمد سے متعلق پوچھنے گیا تھا لیکن باصلاحیت پروین کے مزید ہنر بھی سامنے آگئے۔ پروین ایک نجی اسکول میں ٹیچر ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ ماربل ترکی برآمد کرنے
کا کاروبار بھی کرتی ہیں۔ اسکول سے واپسی پر دوپہرکا کھانا کھا کر وہ منگھوپیر روڈ
پر اس فیکٹری میں آتی ہیں، پروین کی غیرحاضری میں ان کے والد عثمان گل کام کی
نگرانی کرتے ہیں۔
پروین عثمان نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم جدہ میں پاکستانی سفارتخانے کے اسکول میں
حاصل کی۔ اس کے بعد ان کی فیملی واپس کراچی آگئی دو ہزار چار میں صرف
اکیس سال کی عمر میں وہ کزن کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ گھریلو
ذمہ داریوں کے باوجود پروین نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑ لیا اور سسرال بالخصوص
شوہر کے تعاون سے دوہزار چھ میں گریجویشن مکمل کی۔
اس دوران وہ ٹیچنگ بھی کرتی رہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سیاست میں آنے کا خیال کیسے
آیا تو کہنے لگیں کہ ان کا علاقہ پٹھان کالونی سائٹ انتہائی پسماندہ ہے،لوگ
الیکشن کےدوران خوش نما نعرے لگا کر ووٹ لیتے ہیں پھر پلٹ کر علاقے کی خبر نہیں
لیتے اس لیے انہوں نے خود میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا۔
پروین عثمان نے
ڈور ٹو ڈور مہم چلائی، خواتین سے ملیں، بقول ان کے کہیں سے بہت اچھا رسپانس ملا
جبکہ کہیں پر خواتین نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ چونکہ پٹھان کالونی میں پہلی بار
ایسا ہوا کہ پختون لڑکی نہ صرف الیکشن لڑرہی تھی بلکہ خود ہی انتخابی
مہم چلارہی تھیں، تاہم انہیں خاندان اور عزیز و اقارب کی بھرپور حمایت حاصل
تھی، خاص کر ان کے والد اور شوہر نے بھرپور سپورٹ کیا۔
اگر چہ وہ صرف
اُناسی ووٹ حاصل کرسکیں لیکن وہ مایوس نہیں ہیں، اورآئندہ بھی اس میدان کارزار میں
قسمت آزمانے کے لیے تیار ہیں۔ پروین عثمان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ الیکشن
جیت کر عوام کی خدمت کریں۔ وہ گھر پر بھی بچوں کو پڑھارہی ہیں، مستقبل میں گھریلو
خواتین کو پڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں اس کے علاوہ چاہتی ہیں کہ علاقے کی
تعلیم یافتہ لڑکیوں کی تربیت کریں تاکہ وہ معاشرے میں آگے بڑھ سکیں۔
پروین
کے شوہر ایک پرائیویٹ کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی دوبہنیں
اور چار بھائی ہیں تمام تعلیم یافتہ ہیں۔ باہمت پروین اسکول جاب اور کاروبار کے
ساتھ فیملی کو بھی بھرپور وقت دیتی ہیں ان کا بیٹا چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے۔
پروین عثمان کا کہنا ہے کہ پہلی بار جب وہ گاڑی ڈرائیو کرکے نکلیں تو علاقے
کے لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے بچوں نے تو نعرے بھی لگائے کہ "الہ خزہ گاڈے
چلئی" ( دیکھو عورت گاڑی چلارہی ہے) لیکن پھر آہستہ آہستہ سب عادی ہوتے چلے
گئے۔
جب وہ انتخابی
مہم کے لیے نکلیں تو پہلے لوگ حیران ہوئے پھر آہستہ آہستہ انہیں قبول کیا۔
پروین عثمان سوئمنگ کلب کی ممبر ہیں اس کے علاوہ فارغ وقت اگر ملے تو ٹیبل
ٹینس کھیلتی ہیں۔ سونے سے پہلے آدھا گھنٹہ سوچ کر دن بھر کی کارکردگی کا جائزہ
لیتی ہیں۔ پروین عثمان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں
تاکہ والد فخر سے کہہ سکیں کہ پروین ان کے چار بیٹوں سے بڑھ کر ہیں۔
پروین عثمان کے
والد عثمان گل صاحب سے بھی گفتگو ہوئی، جو عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں اور
جدہ میں پارٹی کے سرکردہ رہنماء بھی رہے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پختون معاشرے
میں کسی لڑکی کے لیے اس طرح نکلنا مشکل ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو سپورٹ
کیا اور انہیں خاندان کی حمایت بھی حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ پروین نے کسی بھی
موقعہ پر ہمت نہیں ہاری ہے، انہیں اپنی بیٹی پر فخر ہے۔
آخر میں پروین
عثمان گل نے کہا کہ تمام لڑکیوں بالخصوص پختون لڑکیوں کو اب ہمت کرکے نکلنا چاہیئے
تعلیم کے لیے،باعزت روزگار کے لیے تاکہ نہ صرف اپنے گھروالوں کو سپورٹ کرسکیں بلکہ
غیرمعمولی کارکردگی دکھا کر ملک کا نام بھی روشن کرسکتی ہیں۔
پروین عثمان گل نے کہا کہ تمام لڑکیوں بالخصوص پختون لڑکیوں کو اب ہمت کرکے نکلنا چاہیئے تعلیم کے لیے،باعزت روزگار کے لیے تاکہ نہ صرف اپنے گھروالوں کو سپورٹ کرسکیں بلکہ غیرمعمولی کارکردگی دکھا کر ملک کا نام بھی روشن کرسکتی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںkpk jobs