ملک کے گمبھیر مسائل اور کلین، گرین مہم
تحریر: شارق جمال خان
دس سالہ شفقت کمر
میں بورا لادا ہاتھ میں مقناطیس کی رسی تھامے گلی گلی گھوم رہا تھا،
لیکن
نہ تو کہیں کچرے کا ڈھیر نظر آرہا تھا نہ مقناطیس پر دھات چپک رہی تھی۔ صبح سے شام
ہوگئی شفقت ایک کلو بھی گتہ، لوہا جمع نہ کرسکا۔
بھوک کا خوف بیمار
ماں کی دوا زندگی اور موت کا مسئلہ بن کر سامنے تھے۔ کسی کچرے خانے میں آج کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں ملا۔ گھر کیا لے کر
جائے چھوٹی بہن کو کیا کھلائے۔ ننھا ذہن بڑے بڑے سوالات کے جواب کیلئے دربدر بھٹک رہاتھا۔
ننھے شفقت کا سایہ
ڈھلتے سورج کے ساتھ ا س کے قد سے لمبا ہورہا تھا۔ مسجد سے اذانوں کی صدائیں گونجنے لگیں۔ کسی کے سامنے
ہاتھ پھیلانے کا خیال آتا تو ماں کی نصیحت آڑے آجاتی ۔ ننھے قدم جب تھک گئے تو بورے کو تکیہ بناکر شفقت
نے کچھ دیر کیلئے آنکھیں موند لیں۔
کان میں آوازیں
آنا شروع ہوئیں تو ننھے شفقت کی آنکھ کھل گئی۔ چوک پر بیٹھے لوگ حکومت کی کلین گرین
مہم کی زور و شور سے تعریف کررہے تھے۔۔ ایک شخص تاریخی کارنامہ قرار دے رہا تھا تو
دوسرا حکومت کی سنجیدگی اور مسائل حل کی ترجیحات پر قلابے بھرر رہا تھا۔
شفقت کے ننھے ذہن
میں سوال کودا کہ وہ اور اس جیسے ہزاروں بچے اس قابل نہیں کہ کوئی حکومت ان کی پسماندگی
کو ترجیحات پر رکھتی۔ شفقت نے اپنے جسم پر جگہ جگہ سےپھٹے کپڑوں پر نظر ڈالی تو خود
کوبھی کچرا ہی محسوس کیا پھر سوچا کہ ابھی تک انتظامیہ اور حکومت کی نظر اس پر کیوں
نہیں پڑی وہ بھی ایک کچرا ہی تھا۔ صاف ستھرے معاشرے میں اس کو ٹھکانے کیوں نہیں لگایا
گیا؟ اس جیسے ہزاروں خاندانوں کی صفائی کا خیال حکومت کو کیوں نہ آیا؟
کلین گرین مہم کے
بعد پہلا دن گزر گیا۔ دس سالہ شفقت بمشکل پینتیس
روپے کا کاٹھ کباڑ جمع کر پایا۔ اگلے دن پھر بورا اٹھا کر تیز قدموں معمول سے پہلے
گھر سے نکلا۔ کچرے کی تلاش مقناطیس کی سڑک
سے گڑگڑاہٹ میں روٹی کی متلاشی آنکھیں تھک گئیں لیکن کہیں کچھ نظر نہیں آیا۔ بھوک سے
انتڑیاں پلٹ رہیں تھیں کلیجہ منہ کو آرہا تھا لیکن ذہن میں ایک ہی دھن سوار تھی کہ نہ جانے کب غشی کا دورہ پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔
آنکھ کھلی تو خود
کو سرکاری اسپتال میں پایا۔ ڈرپ کے نام پر ایک پانی کی بوتل باریک سوئی کے ذریعے جسم
سے منسلک تھی۔ کسی طرح گھروالوں کو اطلاع پہنچی پریشانی کے عالم میں اسپتال پہنچے تو
معلوم ہوا اسپتال میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کے ساتھ ادویات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ننھے شفقت کے ذہن میں پھر سوال کودا کہ کلین
گرین مہم ترجیحات میں اتنی اول تھی کہ اسپتال میں مفت ادویات کی فراہمی سے زیادہ ضروری
سمجھا گیا۔
علاج ادھورا چھوڑ کر ماں ننھے شفقت کو گھر لے کر
گئی تو اسپتال کے عملے نے سختی سے پینے کیلئے صاف پانی کی ہدایت کردی۔ صاف پانی کا
حصول تو غریب خاندان کو جوئے شیر لانے کے مترادف لگا جن کے نلکوں میں گٹر لائن ملا مکس پانی مہینے میں ایک دو بار آتا ہے وہ خاندان یومیہ آمدنی سے زیادہ مہنگی
ایک لیٹر منرل واٹر کی بوتل کیسے خرید سکتا تھا؟
شفقت نے پھر سوچا
حکومت کی نظر میں اس کے مسائل کے حل سے زیادہ اہم کیوں؟ بچے کی صحتیابی کے پیچھے شفقت کی بوڑھی بیمار ماں چل بسی۔ دس سالہ شفقت نے
پھر سوچا کہ یہ کلین گرین مہم ضروری کیوں ہے؟ غریب کا علاج معالجہ اولین ترجیح کیوں
نہیں؟ ماں کے بعد شفقت اور اس کی چھوٹی بہن
کاخیال رکھنے والا کوئی نہیں رہا۔ معصوم بچی کی صحت بھی بگڑتی گئی اور غذائی قلت کا
شکار بچی نے بھی آخرکار ایک دن آنکھیں موند لیں۔
شفقت کےننھنے ذہن
میں پھر سوال اٹھا کہ کلین گرین سے زیادہ ہم غریبوں کی روٹی کا بندبست کیوں نہیں؟ اب
دس سالہ شفقت اکیلا رہ گیا۔ کچرے کا بورا تھامےایک
ٹی وی مکینک کی دکان کے آگے شدت بھوک سے نڈھال ہوکر گرگیا۔ دل کی دھڑکنیں آہستہ آہستہ
طویل ہورہی تھی۔سانسیں اکھڑ رہی تھیں عین اسی وقت جب شفقت کے جسم سے جان کا رستہ ٹوٹ
رہا تھا وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے الفاط سماعت سے ٹکرائے کہ حکومت نے کچرا ختم کرکے
ملک سے گندگی کا خاتمہ کردیا۔
اس تحریر کے
مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں
خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر
رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا
تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے
سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment