بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

People of Pakistan

تحریر: شاہد انجم

بہت نا انصافی ہو رہی تھی لوگوں کو بند کیا جارہا تھا کئی بے گناہوں کو قتل بھی کیا گیا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، مائیں گلیوں اور بازاروں میں بین کرتی پھر رہی تھی، کئی بچے یتیم ہوکر گھروں کے دروازے پر کسی کا انتظار کر رہے تھے کچھ انہیں معلوم ہی نہیں تھا، بھوک اور افلاس بڑھ چکی تھی، کوئی پوچھنے والا نظر ہی نہیں آرہا تھا۔

دلاور خان اپنے محل میں ظلم اور بربریت کی ایسی ہی بیٹھک لگاتا تھا لیکن ظلم آخر ظلم ہے، وہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ذہنی سکون نہیں پا رہا تھا۔ ذہنی کوفت جسمانی پریشانی کا ہر وقت شکار رہتا تھا۔ کسی بھی طبقے رنگ نسل کا کوئی بھی شخص ہو اسے ظلم کرتے ہوئے یا اس کا حق مارنے پر اسے کبھی ندامت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنی عیش و عشرت کے لیے کسی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ حکم عدولی کرنے والے کا انجام یہی ہوتا ہے۔

دلاور خان نے اپنے ارد گرد چند گماشتے پال رکھے تھے جو اسے اطلاعات فراہم کرتے تھے مگر وہ گماشتے کسی کے بارے میں جھوٹی یا سچی اطلاع دینے کے بعد صرف اس وقت کا انتظار کرتے تھے کہ کب اسے سزا ملے تاکہ اس کو سزا پاتے ہوئے انہیں ذہنی سکون مل سکے۔ انہیں معلوم تھا کہ دلاور خان ان سے ان کی اطلاعات کے بارے میں کبھی بھی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔ وہ حرام حلال میں کبھی بھی تمیز نہیں کر پایا۔

اب تو ظلم اور بربریت کی لا تعداد مثالیں قائم ہو چکی تھیں اور ظلم کا شکار لوگ بھی دلاور خان کی طرح اب اچھے اور برے کی تمیز بھول چکے تھے کیونکہ انہیں اب انصاف کی توقع نہیں تھی۔

آخر کار ایک روز کسی بزرگ کو دلاور خان کے سامنے پیش کیا گیا جسے دیکھ کر دلاور خان نے پوچھا یہ کون ہے تو بتایا گیا کہ یہ قریب ہی ایک جھونپڑی میں رہتا ہے اور جب بھی اس سے آپ کے بارے میں کوئی بات کی گئی تو اس کے چہرے پر پریشانی عیاں ہوئی اور نہ ہی اس نے آپ کے خوف سے جھگی چھوڑنے کی بات کی۔

جواب سن کر دلاور خان نے سب کو کہا کہ اس کو میرے پاس چھوڑ دو اور تم چلے جاؤ۔  سب لوگ وہاں سے رخصت ہو گئے جس کے بعد دلاور خان نے بابا جی سے سوال کیا کہ میں نے اپنے زور بازو سے بہت کوشش کی کہ اپنا سکہ جما سکوں مگر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں ناکام ہوں۔

بابا جی نے جواب دیا کہ تم اصل راستے سے ہٹ چکے ہو، تم حرام حلال کی تمیز کھو چکے ہو، آج سے تم اپنے گرد حلال اور حرام کے بارے میں باقاعدہ ایک مہم کا آغاز کرو اور میں امید کرتا ہوں کہ تم کامیاب ہو جاو گے مگر یہ مت بھولو کے وقت بہت زیادہ گزر چکا ہے پھر بھی امید کی کرن باقی ہے۔

دلاور خان اور بابا جی کے درمیان اس گفتگو کو اگر موجودہ حکومت کی گزشتہ دنوں کی جانے والی کوشش جس میں موجودہ  حکومت اس بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ ملک کے تمام مساجد سے یہ اعلانات کرائے جائیں کہ بجلی چوری حلال ہے یا حرام ہے اور اس بارے میں فتوی جاری کیا جائے کہ بجلی چوری کرنے والے حرام کما رہے ہیں اور لوگوں کو مساجد کے ذریعے آگاہی دی جائے کہ اگر کوئی بھی ایسی عادت کو اپنائے گا تو وہ چوری کی مد میں شمار ہو گا۔

آخر کار موجودہ حکومت کو اکہتر سال کے بعد یہ خیال آ ہی گیا کہ پاکستان کا وجود ایک اسلامی ریاست کے نام پر بنا تھا مگر شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایسے حالات پیدا کرنے میں بھی ان کا اور ماضی کی حکومتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ عوام کو آگہی دینے سے قبل یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس عوام پر ظلم اور بربریت بھی انہوں نے ہی کی ہے جو کہ اسلامی نظام کی نفی ہے۔

آج ہمارے ملک میں رہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کون کون سے بنیادی حقوق سے محروم ہے اس بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا تاکہ ہمیں خود بھی اپنی غلطیوں کا احساس ہو اور ہم وہ تمام بنیادی سہولتیں عوام تک پہنچا کر ایک اسلامی ریاست کے عہدیدار کہلوا سکیں۔ ذرا سوچئے



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.