جیسا گرو ویسے چیلے
تحریر: کاشف فاروقی
جامعہ پنجاب کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کامران مجاہد کی گزشتہ ہفتے نیب کے
ہاتھوں گرفتاری کے بعد ہتھکڑی لگے عدالت میں پیشی کے مناظر نے تعلیمی حلقوں میں
کھلبلی مچادی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی معاملے پر نیب حکام کی سرزنش کی اور اس عمل کو
استاد کی موت کے مترادف قرار دیا۔ آج جامعہ کراچی کی انجمن اساتذہ سمیت دیگر
تنظیموں نے واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن سوچنے کی
بات یہ ہے کہ اساتذہ پر الزامات پہلے کیوں نہیں لگتے تھے؟
ہمارے معاشرے میں استاد اور اس کے رتبہ کی موت تو شاید بہت پہلے ہی ہوچکی ہے،
اگر نہیں تو پھر استاد پر بدعنوانی میں ملوث ہونے، جعلسازیاں کرنے، زمینوں پر
قبضے، ریٹائرمنٹ کے باوجود سرکاری مکان خالی نہ کرنا، شراب نوشی کرتے ہوئے پکڑے
جانے اور سب سے زیادہ بھیانک طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کیوں
لگتے ہیں؟ یہ تمام الزامات درست نہیں ہوتے مگر کیا سب ہی غلط ہوتے ہیں؟
معاشرہ میں تباہ ہوتی اقدار کی ٹریفک دو طرفہ رواں دواں ہے، استاد کو معلوم ہے کہ اس کا مقام کیا ہے نہ ہی
معاشرے کو یاد ہے کہ استاد روحانی والدین کے رتبہ پر فائز ہوتا ہے۔
وہ بھی کیا زمانے تھے جب جامعہ کراچی میں ڈاکٹر اے بی حلیم، ڈاکٹر محمود حسین،
ڈاکٹر احسان رشید، ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سندھ
یونیورسٹی میں مظہرالحق صدیقی جیسے اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ اعلٰی علمی شخصیت کے مالک یہ استاتذہ نہ صرف زندگی بھر
شمع کی مانند رہے بلکہ آج بھی ان کے علم سے کتابوں کی صورت میں استفادہ کیا
جاسکتا ہے۔
ایک سرکاری افسر جو کچھ عرصے قبل تک اندرون سندھ تعینات تھے نے خود مجھے بتایا
کہ سندھ یونیورسٹی سے یومیہ بنیادوں پر طالبات کی استاد کے خلاف ہراساں کرنے کی
شکایات موصول ہوتی ہیں مگر بظاہر بااثر شخص کی سرپرستی میں شیخ الجامعہ بنا بیٹھا
شخص خود کچھ کرتا ہے نہ ہی پولیس کو کچھ کرنے دیتا ہے۔
بزرگوں سے سنا تھا کہ استاد کی زندگی سفید چادر کی مانند ہوتی ہے جس پر ایک معمولی
سا داغ یا ہلکی سی چھینٹ بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے، مگر معذرت کے ساتھ ہمارے بعض اساتذہ کی زندگیاں وہ گندی چادریں بن چکی
ہیں جو ڈٹرجنٹ پاوڈر بنانے والے کمپنی کی مشہوری کیلئے اشتہاروں میں دکھاکر پھر سے
اجلا بنانے کا دعوٰی کرتی ہیں لیکن بھولنا نہیں چاہیے "جو بو گ، وہی کاٹو گے"۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment