کراچی کی طرح پاکستان بھی سب کا ہے؟
تحریر: کاشف فاروقی
ایک زمانہ تھا جب کراچی ملکی سیاست میں رہنمائی کیا کرتا تھا، اس شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے اپنے شہر سے منتخب ہونے کے بعد ملک بھر کے مظلوموں کی نمائندگی کی، جب ہی تو دنیا ئے فانی سے کوچ کرنے کے باوجود بھی ان کی مثالیں دی جاتی ہیں، مگر اب یہ عالم ہے کہ قبائلی علاقوں اور کشمیر سے روٹی روزگار کی تلاش میں آئے محسود اور راجہ یا پھر ان کی دوسرے نسل اس شہر کے سیاسی نمائندے منتخب ہوچکے ہیں۔
لیکن کسی سے کیا شکوہ، ایم کیو ایم نےپینتیس سال جو بویا اس کی فصل ایسی ہی اترنی تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر ادیب رضوی، پروفیسر غفور احمد اور نعمت اللہ خان جیسی عظیم ہستیوں کو چھوڑ کر اندھوں، لولوں، لنگڑووں، کالوں، کنجوں اور سر پھٹوں کو بھائی بنایا، ان کے پیچھے چل پڑے تو اس راستے کا یہی انجام ہونا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور چائنا کٹنگ نے آئندہ کئی دہائیوں تک اس شہر کی سیاسی فصل تہس نہس کردی ہے۔
پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کا ساتھ دینے پر کراچی والوں کو سبق سکھانے کی اسی وقت ٹھان لی تھی اور اس مقصد کے حصول کیلئے "غیر مقامی پیش امام اور غیر مقامی تھانیدار" فارمولے پر کام شروع کیا گیا۔ ایوبی فارمولا اپنا کام کرگیا۔
دیگر شہروں سے روٹی روزگار کیلئے آنے والوں پر اولیت دینے کے عمل نے کراچی کو تین لاکھ کی آبادی سے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بننے والوں میں احساس محرومی کو جنم دیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک بلا کی شکل اختیار کرلی۔ تعصب کی ایسی آگ لگی کہ سب کچھ جل کر خاک ہوگیا، جو نقصان غیروں کے عمل سے نہیں پہنچا تھا وہ اپنوں کی فاش غلطی نے پہنچا دیا۔
کراچی میں تعصب کی آگ بھڑکی تو مہاجر پرستی نے اکثریت کو اندھا کردیا، ایم کیو ایم کراچی کی اکلوتی حکمران بن کر سامنے آئی لیکن پھر جلد ہی گنگا الٹی بہنے لگی، ایم کیو ایم مہاجر حقوق کی بجائے پورے ملک کے مظلوموں کو حقوق دلانے کے خواب دیکھنے لگی، مہاجر قومی موومنٹ، متحدہ میں تبدیل ہوگئی، لیکن انہیں پھر بھی غیر مہاجر آبادیوں کیلئے تو غیر مہاجر امیدوار ہی تلاش کرنا پڑے البتہ مہاجر آبادیوں سے غیر مہاجروں کو بھاری اکثریت سے جتوایا جانے لگا۔
میرا اس بات پر کامل یقین ہے کہ کراچی اس ملک میں بسنے والے ہر پاکستانی کا ہے لیکن اس بات کو اس قدم پر رکنا نہیں چاھیئے، اور کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ کراچی والوں کا احساس محرومی دور کرنے کیلئے انہیں بھی یہ یقین دلایا جائے کہ کراچی کی طرح پاکستان بھی سب کا ہے،تاکہ تعصب کا زہر ختم ہونے کیلئے کم ہونا تو شروع ہو۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دیگر شہروں سے روٹی روزگار کیلئے آنے والوں پر اولیت دینے کے عمل نے کراچی کو تین لاکھ کی آبادی سے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بننے والوں میں احساس محرومی کو جنم دیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک بلا کی شکل اختیار کرلی۔ تعصب کی ایسی آگ لگی کہ سب کچھ جل کر خاک ہوگیا، جو نقصان غیروں کے عمل سے نہیں پہنچا تھا وہ اپنوں کی فاش غلطی نے پہنچا دیا۔
جواب دیںحذف کریںkarachi jobs