قرض؛ خوشخبری یا معذرت؟
تحریر: شارق جمال خان
اقتدار سے پہلے انتخابی نعروں اور مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد نعروں، دعووں سے منحرف ہوجانا پاکستانی سیاست میں کوئی معیوب بات نہیں۔ سادہ لوح عوام کو رام کرنے کیلئے نعرے دعوے کرنے پڑتے ہیں لیکن حقیقت کا اندازہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ہی ہوتا۔
ایسا ہی کچھ ہوا ہماری نئی نویلی پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ۔ انتخابی مہم میں حکومت مخالف جلسے جلوسوں میں مسلسل آئی ایم ایف سمیت دیگر ممالک سے قرض کی شدید مخالفت کے ساتھ مہنگائی پر لمبی لمبی تقریریں کی گئیں۔ ایندھن سے لے کر بجلی پانی گیس کی قلت اور نرخوں میں لگے سیلز ٹیکسز کے خلاف بھاشن، صحت ، تعلیم روزگار کی فراوانی کے وعدے،مہنگائی کو قابو کرنے کی دعوے، تحریک انصاف نے روایتی طورپر وہی سب کیا جو عمومی طور پر تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں لیکن سب سے الگ بات تھی کشکول تھمانے کے بجائے توڑنا، چھوڑنا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا یقین دلانا۔
اقتدار ملتے ہی خزانے کی حالت دیکھی تو اندازہ ہوا معاشی ابتری کا۔ بہتری کیلئے سوچ بچار بھی کی لیکن راستہ نہ نکلا اور آئی ایم ایف تک جانے کا فیصلہ کرنا ہی پڑا۔ قرض کیلئے درخواست کرنی ہی پڑی تو آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان کو چین سمیت تمام قرضوں میں مکمل شفافیت ظاہر کرنے کا پیغام دے دیا۔
آئی ایم ایف تک کی بات تو ہوگئی ۔ کسی بھی ملک کے کشکول نہ اٹھانےکی بات پی ٹی آئی کے ایجنڈے میں سرفہرست نکات میں شامل تھی لیکن ابتدائی ساٹھ روز میں ہی سعودی عرب سے تین سال کیلئے تین ارب ڈالر اور تین ارب ڈالر کا تیل لینے میں کامیاب ہوگئی یعنی کل ملا کربارہ ارب ڈالر۔ حکومت نے دوماہ میں بڑا زرمبادلہ اور تیل حاصل کرلیا۔ اس قرض کو خوشخبری کا نام دیا جائے یا معذرت کی جائے۔
تین ارب ڈالر توتجوری میں رکھ کر زرمبادلہ ذخائر اور ڈالر کی اڑان کے پر کاٹ لئے جائیں گے لیکن تین ارب ڈالر سالانہ تیل کی مد میں ادھار کیسے چکایا جائے گا؟ موجودہ معاشی حالات میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں سبسڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر سبسیڈائز کربھی دیا تو ادھار واپسی مزید مشکل ہوجائے گی، بوجھ پڑے گا عوام کی جیبوں پر، ایسے میں قرضہ کا حصول خوشی کی خبر ہے یا پیشگی معذرت، وقت کی ضرورت؟
تین ارب ڈالر توتجوری میں رکھ کر زرمبادلہ ذخائر اور ڈالر کی اڑان کے پر کاٹ لئے جائیں گے لیکن تین ارب ڈالر سالانہ تیل کی مد میں ادھار کیسے چکایا جائے گا؟ موجودہ معاشی حالات میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں سبسڈی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر سبسیڈائز کربھی دیا تو ادھار واپسی مزید مشکل ہوجائے گی، بوجھ پڑے گا عوام کی جیبوں پر، ایسے میں قرضہ کا حصول خوشی کی خبر ہے یا پیشگی معذرت، وقت کی ضرورت؟
ستائیس سو ارب ڈالر کے مقروض پاکستان پر قرضوں کا مزید بوجھ بڑھ جائے گا ایسےمیں اگر آئی ایم ایف سے بھی قرضہ لے لیا تو معاشی ابتری کو بہتری میں تبدیل کرنے والوں کے دعوے کہاں جائیں گے؟ پھر سعودی عرب سے قرضہ کا حصول خوشی کی خبر ہے یا پیشگی معذرت وقت کی ضرورت؟
بات سعودی عرب تک محدود نہیں ملک کے نئے کپتان نے مزید دو ممالک سے قرض کے حصول کی نوید سنا کر اپنے ہی کھلاڑی وزیر خزانہ اسد عمر کی اس منطق کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے انتہائی مشکل اقتصادی دور سے گزر رہا ہے۔
عوا م کو طفل تسلی دینے والے کہیں گے عمر ا ن خا ن جو کر رہے ہیں نیک نیتی کے جذ بے کے تحت کر رہے ہیں۔ عمران خان کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے لگتا بھی یہی ہے کہ وہ یہ سب نیک نیتی کے جذبے کے تحت ہی کررہے ہوں گے مگر نیک نیتی کوئی او ر شے ہے اور زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں اور وہ کسی نیک نیتی کے پابندیا متحمل نہیں ہوسکتے۔ اسلئے خان الیون کو نظر ثانی کرلینی چاہئے کہ قرض کے حصول کو خوشخبری کا نام دینا ہے یا عوام سے پیشگی معذرت میں عافیت ہے۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment