پہلے اپنا آئینہ صاف کریں

Most police stations built on encroached land in Karachi

تحریر: شاہد انجم

راستہ کٹھن ہے، وقت مشکل، انکار کر نہیں سکتے، اقرار کرنا بھی مشکل ہے، جائیں تو جائیں کہاں؟ احکامات بڑی سرکار کے ہیں فوری طور پر دشوار راستہ صاف کیا جائے مگر دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے ان لوگوں کو میں کیا جواب دوں گا جو میری طاقت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر مجھے کہیں متعارف کراتے ہوئے گھبراتے ہیں!

چوہدری صاحب کو جب یہ ہدایت نامہ موصول ہوا تو انہوں نے احکامات جاری کیے کہ آج کے بعد کسی کی زمین پر قبضہ ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کا حق مارے گا اور اگر ایسا ہوا تو اسے رسوائی اور ندامت بھی اٹھانا پڑے گی۔

اب وہ کیا کرتا تصویر کا دوسرا رخ جب وہ دیکھتا تو سوچتا کہ میری وہ عیش و عشرت کی زندگی اب کہاں جائے گی۔ مجھے خوف ہے اس وقت سے جب پلیٹ میں رکھا ہوا لڈو چھوٹے سائز کا ہوگا کیونکہ جو احکامات میں جاری کر رہا ہوں وہ شاید میرے گھر کی دہلیز تک ہی آکر اختتام پذیر ہوں گے۔  

اگر اس میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت موجود ہوتی تو شاید وہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کو مدنظر رکھتا کہ اگر کوئی ایسا وقت آگیا تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ سرکار اور عوام کو ہم جواب کیا دیں گے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ مقدمے کے مدعی ہی ملزم کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوں اور قاضی اس سے سوال کرے کہ سر اٹھا کر جواب دو جو ذمہ داری تجھے سونپی گئی ہے کیا تم نے اسے ایمانداری سے نبھائی اور اگر تم نہیں نبھا سکتے تھے یا تمہیں حالات کا علم تھا تو اس کی حامی بھرنے سے پہلے تمہیں حقائق کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہیے تھیں تاکہ آئینے پر پڑی گرد اتر جاتی اور تمہیں اپنا چہرہ بھی صاف و شفاف نظر آتا۔

بہرحال اب بھی وقت ہے تم قاضی کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہو۔ یہ تمام خیالات جب ذہن میں آ رہے تھے تو چوہدری صاحب کی ذہنی کیفیت اس طوطے کی طرح تھی جو اپنے مالک سے ہی سیکھ کر اسے جواب دیتا ہے۔

چوہدری صاحب کا یہ قصہ بھی  ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جاری ان احکامات کی طرح تھا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ پندرہ روز کے اندر اندر شہر بھر میں قائم تمام تجاوزات کو ختم کر دیا جائے اور خاص طور پر محکمہ پولیس پر یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ وہ شہر قائد میں ٹھیلوں اور پتھاروں سے بڑی رقم بھتہ یا رشوت کے طور پر وصول کرتی ہے جس پر پولیس کا موقف تھا کہ اس پر بلدیاتی ادارے ہم سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

عدالت نے یہ احکامات دیئے کہ پولیس اور دیگر ادارے عدالتی احکامات کا احترام کرتے ہوئے ان تجاوزات کو ختم کریں مگر احکامات کے کاغذ بغل میں دبا کر احاطہ عدالت سے نکلنے والے پولیس افسران شاید اس بات کو بھول گئے کہ شہر میں اس وقت ایک سو بارہ پولیس اسٹیشن اور اسی سے زائد ٹریفک چوکیاں قائم ہیں۔

اگر سروے کیا جائے تو کراچی میں ستر فیصد پولیس اسٹیشن اور ٹریفک چوکیاں تجاوزات ہی ہیں، مگر کسی بھی دور میں محکمہ پولیس کے کسی بھی کمانڈر نے تجاوزات کے خلاف کبھی بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ عوام کی رکھوالی کرنے والے خود زمینوں پر قابض ہیں لہذا پولیس افسران کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ اپنا آئینہ صاف کریں تاکہ انہیں صحیح تصویر دکھائی دے اور پھر وہ آگے بڑھ کر دیگر تجاوزات کو ختم کرائیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ گزشتہ ساٹھ سال سے سندھ پویس کا سب سے بڑا تحقیقاتی شعبہ سی آئی اے بھی انگریز نے گھوڑوں کے اصطبل میں قائم کیا جو آج بھی قائم ہے اور اسی اصطبل میں انسانوں سے تحقیقات کی جاتی ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہوئے اعلیٰ افسران کو عدالت کے سامنے سچ بتا دینا چاہیے اور شہر کی دیگر تجاوزات ختم کرنے کے ساتھ اپنی وردی پر لگا کیچڑ بھی صاف کرنا ہوگا۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.