دہرا معیار
تحریر: شاہد انجم
جنگل میں جانوروں کے جھنڈ
جو کے مختلف اوقات میں بنی ہوئی گزرگاہوں سے گزرتے تھے ان کا کوکوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ ان جانوروں
کے مالکان بہت ہی سادہ اور قانون سے نا واقف تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جنگل شہری علاقوں سے بہت دور تھا ۔ چرواہوں نے کبھی شہر کا رخ تک نہیں کیا تھا۔
کئی کئی خاندان
جنگل میں ہی پیدا ہوئے اور وہی ان کی زندگی کی شام ڈھل گئی۔ وہ سورج کی کرن کے ساتھ
زندگی کا آغاز کرتے اور روشنی مدہم ہوتے ہی
اپنے راستے پر واپس رخ موڑلیتے۔ اسی اثناء میں جنگل سے ایک بادشاہ کا
گزر ہوا۔ رات کا وقت ہونے کو تھا تو بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ قافلے کو روک کر اسی
جگہ پڑاؤ ڈال دیا جائے۔ سب لوگ بادشاہ کے
حکم کے مطابق رک گئے۔
اگلے روز سورج طلوع
ہوا تو بادشاہ سلامت اپنے خیمے سے باہر نکلے جنہیں دیکھ کر ان کے محافظوں نے قریب کے
علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آجا ئے۔ معمول کے مطابق جنگل
میں رہنے والے چرواہوں نے اپنے اپنے جانوروں کے جھنڈ لے کر وہاں سے گزرنا شروع
کیا تو بادشاہ سلامت نے دیکھا کہ اتنے خوبصورت جانور آزاد ماحول میں رہتے ہیں۔
بادشاہ سلامت
نے محافظوں کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ جو جانور مجھے
اچھا لگے اس کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ اس لیے کہ مجھے جانور کے جسم کے کچھ
حصوں کا گوشت بہت ہی پسند ہے۔ انہیں ذبح کرکے مجھے وہ گوشت دے دیا جائے تاکہ میں اس
سے لذت حاصل کر سکوں جبکہ باقی گوشت جانور
کے مالک یا دیگر لوگوں میں بانٹ دیا جائے اور
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسے سرکار کے حوالے
کردیا جائے۔
بادشاہ سلامت کے
حکم کی تعمیل کی گئی اور اس کے محافظوں نے
جانور ایسے ہی ذبح کردئیے، مگر کسی نے جھنڈ کے مالک سے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے دل پر
کیا بیت رہی ہوگی، اس کو کتنا مالی نقصان ہوا یا اُسے کتنا صدمہ پہنچا اور شاید اس کا اندازہ خود با دشاہ
سلامت کو بھی نہیں ہوپایا۔
چند روز بعد بادشاہ
سلامت کے حکم پر پڑاؤ ختم کرکے وہاں سے کوچ
ہوا تو کئی چرواہوں نے انہیں راستے میں روک کر کہا کہ آپ وقت کے باشاہ ہیں۔ آپ کا حکم
سر آنکھوں پر مگر آپ کی خواہشات کا انہیں کتنا
نقصان ہوا اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے اور
اگر اس بات کا آپ کو بعد میں پچھتاوا ہوا بھی تو اس کا ازالہ شاید آپ نہ کر پائیں۔
بادشاہ سلامت کی
اس داستان کو پڑھنے کے بعد مجھے ملک کے سب سے بڑ ے شہر کراچی میں گزشتہ روز رکشہ ڈرائیور کی خود سوزی کی کوشش کا
واقعہ یاد آگیا۔ ٹریفک قوانین کی مبینہ طور
پر خلاف ورزی کرنے والے شہریوں کیخلاف
کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
پولیس کے اعلیٰ
حکام کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں تمام پولیس افسران کو روزانہ کی بنیاد
پر طے شدہ تعداد بتائی گئی کہ ہر حال میں انہیں
اتنی تعداد میں چالان کرنے ہی ہیں۔
اعلیٰ حکام کی جانب
سے یہ احکامات جاری تو کیے گئے مگر کسی نےاس کے بعد یہ معلوم نہیں کیا کہ آپ کے دئیے
گئے احکامات پر کس حد تک عمل درآمد کیا گیا؟ کیا ٹریفک پولیس کےافسران ایمانداری سے
اپنے ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں؟ اب تک جو کارروائیاں
کی گئیں اس میں کس حد تک صداقت ہے؟ کیا جو سزا انہیں دی جا رہی ہے وہ جرم انہوں نے
کیا بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
ٹریفک پولیس کے
افسران کو یہ بھی لالچ ہوتا ہے کہ چالان کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم کا دس فیصد حصہ
انہیں انعام کے طور پر لوٹایا جاتا ہے جس سے بادشاہ سلامت کی زبان کی لذت کا اندازہ
ہوتا ہے کہ آپ چند بوٹیوں کیلئے کسی کا جانور کو ذبح نہ کرتے اور
نہ گزشتہ روز ماڈل کالونی کا چالیس سالہ اقبال خود کو آگ لگاتا۔
اگر اس ظلم اور
بربریت کی زد میں آکر کسی اقبال نے جان دے دی تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ ذمہ داری کا تعین ابھی سے کرلیجئے کیونکہ گزشتہ ادوار میں ہزاروں مقدمات ایسے بھی
دج کیے گئے جس میں سہولت کاری کی دفعات شامل تھیں اور چلتے چلتے یہ بھی بتا دیجئے کہ
اب تک ٹریفک پولیس کے افسران و اہلکار کتنی لگثری گاڑیوں کا چالان کرسکے ہیں؟ ذرا سوچیے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment