میرے شہر کا اویس کس کو عشق سمجھ بیٹھا ہے؟

Tomb of Awais Qarni - staunch devotee of the Prophet Muhammad

تحریر: عبید شاہ

یمن کے ایک شہر میں بوسیدہ لباس میں کوئی مستانہ وار جارہا ہے۔ شہر کے آوارہ بچے اس کے پیچھے تالیاں بجاتے اور آوازے کستے چلے آرہے ہیں، بچوں نے کنکر بھی مارنا شروع کردیئے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ فقیر کنکریاں مارنے والوں کو نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ مسکراتے اور زیر لب گنگناتے وہ اپنی دھن میں چلا جارہا ہے۔ اچانک کسی جانب سے ایک بڑا پتھر اس کے سر سے آٹکراتا ہے۔ زخم سے خون کی ایک پتلی سے لکیر جب پیشانی کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ پھرپتھر مارنے والے بچوں کی طرف رخ کرکے کہتا ہے۔

میرے بچو بڑے پتھر نہ مارو چھوٹی کنکریاں مار کر دل بہلاتے رہو۔ بس ایک ہی پتھر سے اندیشہ اتر گیا۔ ایک منہ پھٹ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے۔

نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں۔ میں چاہتا ہوں تمہارا شغل جاری رہے اور میرا کام بھی چلتا رہے۔ کنکریوں سے خون نہیں بہتا۔ پتھر لگنے سے خون بہنے لگتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بغیر وضو کے میں اپنے محبوب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتا۔

یمن کے شہر قرن میں ایک کوچے سے گزرنے والا  یہ درویش  خیر التابعین، عاشق رسول، تاجدار اقلیم محبت خواجہ  اویس بن عامر قرنیؒ ہیں ماں کی خدمت رب ذوالجلال کے سامنے بزرگی کاباعث بنی تو محمدؐ سے غائبانہ عشق وجہ شہرت ٹھہری۔ اللہ و رسولؐ کے نزدیک تکریم ایسی کہ اویس، اللہ کی قسم اُٹھالیتا تو وہ رد نہ ہوتی اور رحمت العالمینؐ اپنے دو اکابر اصحاب حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو اویس قرنی کی مدینہ آمد کی پیشنگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تم ان سے ملو تو اپنے لیئے دعائے مغفرت کروانا اور جب دونوں جلیل و القدر اصحابؓ نے عرفات کے میدان میں اونٹ چراتے مجنوں اویس کو پایا تو ان سے دعائے مغفرت کروائی۔

یہ تو ذکر تھا اویس قرنی کا، میرے وطن میں عشق رسولؐ کے دعویدار بہت ہیں لیکن وہ اویس قرنی کی طرح پتھر سہتے نہیں برساتے ہیں۔ ان کا مزاج حضرت عثمان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے اُن خارجیوں سا ہے جو اپنے نبیؐ کی تمام تعلیمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی قدم اُٹھاتے ہیں۔ جو انسانی حُرمت پر میرے نبیؐ کی احادیث کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

ان کا یہ رویہ کچے پکے مسلمانوں کو دین سے دور کر کے انسانیت سب سے بڑا مذہب کے نعرے کو تقویت دے گا۔ دلیل و حکمت کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ ہم قادیانیوں کے لیئے بڑھتے ہوئے نرم گوشہ سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ زندگی بہت تیز ہے تحقیق اور پڑھنے کے بجائے ہم لائیک اور شئیرنگ سے حق و ناحق کا فیصلہ کرتے ہیں۔

جب ایک یونیورسٹی کا طالب علم اپنے کلاس فیلو سے یہ کہے کہ آسیہ نامی عورت نے توہین آمیز خاکے بنائے ہیں اس سے آپ اس کی معلومات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ عوام کا ریاست اور عدلیہ پر اعتماد نہیں آقاؤں کے اشاروں پر اپنے گھٹنے دونوں طرف موڑ لینے والی ریاستی مشینری اگر اس بار صحیح بھی ہو تو اعتبار کون کرے گا۔ میرا نکتہ نظر اس وقت کسی کو ملعون یا بے گناہ ثابت کرنا نہیں بلکہ اس رویئے کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ سے آج امت مسلمہ انتشار کا شکار ہے۔

جب شاہراہ فیصل پر اپنی چھ سالہ بچی کو اسکول سےوا پس لیجانے والی ماں کو راستہ نہ دیتے ہوئے مظاہرین اپنے شدت غم کا اظہار نازیبا الفاظ سے کریں تو ایسے میں آپ آسیہ اور اس کے پیچھے کارفرما لابی کو تقویت کا سبب بنتے ہیں اور ایسے میں مقتدر قوتوں نے دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ کے بعد شدت پسندی  کے خاتمہ کے لیئے کوئی نیا برینڈ لانچ کردیا تو اُس وقت آپ تنہا ہوں گے، بلکل تنہا۔

روایت ہے کہ عاشق رسول اویس قرنی کو جنت کے دروازے پر اللہ رب العالمین روک دے  گا، اویس قرنی گھبرا جائیں گے کہ اللہ عزوجل مخاطب ہوگا اور کہے گا اویس مجھے تیری ادا سے پیار ہے اپنے پیچھے دیکھ جہنمی کھڑے ہیں تو جہاں جہاں ہاتھ سے اشارہ کرے گا انہیں تیرے طفیل جنت میں داخل کردوں گا۔  

لیکن میرے شہر کا اویس تو امت کی زندگی عذاب بنانے کو عشق سمجھ بیٹھا ہے۔



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.