میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

Prime Minister of Pakistan Imran Khan

تحریر: کاشف فاروقی

ابتدائی بلاگز کے بعد بہت کوشش کی کہ عام شہریوں کے مسائل پر بھی کچھ لکھ سکوں، اور تحریک انصاف کی نومولود حکومت کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے کچھ دیگر لوگوں اور اداروں کو بھی جھنجوڑا جائے لہذا پوری ایمانداری سے سابقہ کئی تحریوں میں کہیں حکومت اور اس کی بے وقوفیوں کا ذکر چاہتے ہوئے بھی نہیں کیا، مگر مجال ہے جو تبدیلی سرکاری نے میری رحم دلی کا ذرا برابر بھی احسان مانا ہو اور سابقہ غلطیوں سے کچھ سبق ہی سیکھ لیا ہوا۔

عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ظرف کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپوزیشن لیڈر کی طرح مخالفین کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اور ان کے وزراء ان سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ سوائے وزیر خارجہ کے ہر وزیر کا رویہ اتنا جارحانہ ہے کہ حکومتی اقدامات کے دفاع کی بجائے حکومت کیلئے قابل نقصان محسوس ہوتا ہے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید تو حکومت کے ففٹی، ففٹی کے اتحادی ہیں لیکن فواد چوھدری کے وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے سفر پر خرچہ پچپن روپے فی کلو میٹر سے لے کر اعظم سواتی کے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے میں مبینہ ملوث ہونے تک کے بیانات نے حکومت کو دو مہینے میں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ حکومت کو مخالفین کی کسی مہم یا سازش کی ضرورت ہی نہیں۔

وزیر خزانہ جو سابقہ حکومت کے دور میں پیٹرول کی قیمت نصف کرنے سے لے کر کئی اور بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے آٹے دال کا بھاؤ پتہ ہونے کے بعد لگتا ہے سکتے میں ہیں۔

وزیر بجلی نے اپنا کام چھوڑ کر آئین کی اٹھارویں ترمیم پر بیان داغ کر حکومت کیلئے نئی مشکلات کا آغاز تو کردیا ہے مگر شاید انہیں نہ پارٹی میں اور نہ ہی ملک میں کوئی یہ بتانے والا ہے کہ آپ کا تعلق ملک کے جس شہر سے ہے وہاں بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ برسوں سے غریب شہریوں کی جیب پر ڈاکہ زنی کے ذریعے 72 ارب روپے لوٹ چکا ہے۔ جماعت اسلامی شہریوں کا مقدمہ لڑ رہی ہے مگر پھر بھی شہریوں نے آپ کو ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیا ہے، ماضی میں جو چور ڈاکو سرکاروں میں رہے ہیں ان کیلئے نیب ہے، اسے کام کرنے دیں، ازخود ترجمانی کی بجائے مسائل کے حل پر توجہ دیں۔

اس تمام جھمیلے میں پھس گیا بیچارہ خرم شیر زمان، جو سابقہ اسمبلی میں بھی تھا تو حزب اختلاف میں مگر ہر احتجاج میں پہنچتا تھا اور بڑھ چڑھ کر شہریوں کے حقوق کیلئے آواز بھی اٹھاتا تھا لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کے معاملے پر احتجاج ہوا تو خرم شیر زمان احتجاج کا ہیرو نہ بن سکا۔

تبدیلی سرکار کے رکن تو اتنے ناسمجھ ہیں کہ وفاق میں حکومت جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے کراچی میں اسے بھی ضرب لگانے سے نہیں چوکتے۔ کبھی فردوس شمیم ایم کیو ایم پر برس پڑتے ہیں تو کبھی کوئی اور، خان صاحب آپ کے ساتھیوں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا زمانہ کیوں ہو؟

اگست، ستمبر، اکتوبر  اور اب نومبر ہے ، ماسوائے سعودی عرب  اور چین سے حصول قرض میں کامیابی کے حکومت کا کوئی جلیل القدر کارنامہ سامنے نہیں آسکا ہے۔

بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور پیٹرول کی قیمت میں بھی ایک مرتبہ پھر اضافے کے بعد تو خان صاحب اور ان کے ساتھیوں سے بس اتنی ہی التجا ہے کہ
بھائی، میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.