چینی قونصل خانہ پر حملہ ناکام، ہیرو سہائی عزیز یا جمن اور شہید اہلکار؟
تحریر: عبید شاہ
جنگ کے دوران
کمانڈر نے اعلان کیا کہ جو فوجی دشمن کے ایک فوجی کو مارنے کا ثبوت پیش کرے گا اس کو
خصوصی انعام دیاجائے گا۔ سارے جوان ایک ایک دشمن فوجی کا سر کاٹ کر لے آئے۔
ایک
"بہادر جوان" ایک دشمن فوجی کی ٹانگ کاٹ کر بطور ثبوت لایا۔ کمانڈر نے
پوچھا سر کیوں نہیں لائے۔ بہادر جوان بولا ‘سر پہلے ہی سے
کٹا ہوا تھا’۔
دلیری و بہادری
کا کچھ ایسا ہی امتزاج 23 نومبر صبح ساڑھے نو بجے چائینیز قونصل خانے
کے باہر دیکھنے میں آیا جب ایک گولی چلائے بنا اے ایس پی کلفٹن سوہائی عزیز جھانسی کی
رانی بن چکی تھیں۔
واقعہ کے بعد چینی قونصل جنرل کو بریفنگ کے وقت
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کھڑے ہوکر سہائی عزیز کو شاباش دی جبکہ آئی جی
سندھ کلیم امام نے بھی انہیں کاندھے پر تھپکی کے ساتھ ساتھ شاندار کارکردگی پر
قائداعظم پولیس میڈل (کیو پی ایم) دینے کی سفارش بھی کر ڈالی۔حالانکہ ان کے حصے
میں کسی دہشت گرد کی ٹانگ تک نہ تھی۔
ان سب باتوں کے
باوجودشاید جھانسی کی رانی کا بھی کوئی قصور نہ ہو کیونکہ فائیو ڈبلیو کی تلاش میں
جب صحافی حضرات چینی قونصل خانے پہنچے ہوں گے تو انہیں اے ایس پی سہائی عزیز
پولیس اہلکاروں کے ہمراہ تمام تر جذبات کے ساتھ ایک ہاتھ میں موبائل فون اور دوسرے
میں جدید پسٹل تھامے آنیاں جانیاں کرتی نظر آئیں۔
فیصل واوڈا کی نو ٹنکیاں بھی قابل دید تھیں
الیکشن سے قبل وہ اسکول گود لے رہے تھے تو کچرا کنڈی پر غریب بچوں کے ساتھ فوٹو
شوٹ میں مصروف تھے اب ان کے حلقے میں پانی لانے کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے کی
مانگ بڑھی تو موصوف وزیر بُلٹ پروف پہنے واچ لگائے چھپن کا پوسٹر بنے گھوم رہے تھے۔
کہیں اسلحہ اور بُلٹ پروف ووٹرز کے خوف سے نہ پہن رکھا ہو۔
سنا ہے اُن کے
حلقہ کے لوگ اُنہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ایسے میں بدلتی اسکرین پر تازہ ترین
صورتحال جاننے کی صدائیں بلند کرتی اینکر کو رپورٹر نے کچھ تو کہنا تھا لہذا دور
کھڑے رپورٹر حضرات نے سوہائی عزیز کو دیکھ کر انہیں آپریشن کی کمانڈ تک سونپ
ڈالی اور معلومات نہ ہونے پر جزیات پر منحصر صورتحال بیان کر دی۔ بات یہیں ختم
نہیں ہوئی خا م مال ملنے کے بعد فیس بکیوں نے سوہائی عزیز کے تالپور خون
ہونے کی حمیت و غیرت سمیت مڈل کلاس فیملی سے ہونے کا احاطہ کرتے ہوئے زمین و
آسمان کی قلابیں ملا ڈالیں۔
اگر سہائی عزیز
گولی چلائے بغیر بہادر ہے تو بوڑھے جمن کا
نام تو سنہرے حروف میں لکھا جانا چائیے جس نے ایک پرائیوٹ کمپنی کا گارڈ ہونے کے
باوجود نہ صرف دہشتگردوں کو قونصلیٹ میں مزید آگے بڑھنے سے روکے رکھا بلکہ قونصلیٹ
میں موجود پندرہ سے بیس افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا ۔
پینسٹھ سالہ جمن
صحت یاب ہوکر گھر چلا جائے گا، شہید پولیس اہلکاروں اشرف اور عامر کے اہلخانہ
معاوضے کی رقم سے اپنی گزر بسر کا سامان کرلیں گے لیکن بچوں کی یتیمی اور بوڑھے
جمن کی صحت یابی کے بعد بستر پر پڑے رہنے جیسی اذیت کم نہ ہوگی کیونکہ انہیں عزت و
تکریم اور ہیرو ہونے کا احساس ہم نے جانے انجانے میں چھین لیا ہے۔
ان کی یادیں نہ
صرف قوم بلکہ ان کے گھر والے بھی ایک سانحہ کی طرح یاد رکھیں گے جس میں فخر کم اور
دُکھ کا عنصر غالب ہوگا۔ فخر و جرات جب بناء کچھ کیئے کسی کی جھولی میں ڈال دیئے
جاتے ہیں تو تعارف کچھ یوں کرایا جاتا ہے کہ شہید عامر کا بھائی بھی چوہدری اسلم
پر ہوئے حملے میں شہید ہوگیا تھا۔
یاد کے لیے فقط
ایک ڈراؤنا قصہ، بہادری، جوانمردی کی کوئی داستان نہیں کیونکہ کوئی ایک گولی چلائے
بناء ہیرو بن گیا اور کوئی جان دے کر بھی
گمنام ہوگیا۔
جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
اورسرخرو ظلِ
الہی ہوں گے
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment