وزیر محترم کو کس نے کہہ دیا وہ جو کر رہے ہیں، سیاست ہے؟


Faisal Vawda in Bulletproof jacket outside Chinese Consulate in Karachi

تحریر: کاشف فاروقی
 
تئیس نومبر کو کراچی میں قائم چین کے قونصل خانے پر دہشتگردوں کے حملوں کے بعد اکثر مناظر پہلے ہوئی دہشتگرد  کاروائیوں جیسے ہی تھے ماسوائے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے بھرم کے۔

حملے کی اطلاع ملتے ہی کرائم رپورٹرنگ سے وابسطہ دیگر ساتھیوں کی طرح میں بھی کچھ دیر میں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا  مگر جس وقت میں چینی قونصل خانے کے قریب پہنچا اس وقت آپریشن تقریباً ختم ہوچکا تھا اور پولیس اپنا کام سرانجام دے چکی تھی، اسی اثناء میں وہ مناظر پہلی بار دیکھنے کو ملے جو بیس سالہ صحافتی کیرئیر میں پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

وفاقی وزراء کو تقریر کرتے، امدادی چیک تقسیم کرتے، میڈیا ٹاک کرتے اور منصوبوں کا افتتاح کرتے تو کئی بار دیکھا تھا لیکن یہ پہلی بار دیکھا کہ دہشتگرد حملے کے مقام پر پولیس کے سپاہی ایک وفاقی وزیر کو بلٹ پروف جیکٹ ایسے پہنا رہے ہوں جیسے بالی وڈ فلم "جودا اکبر" میں جودا کا کردار ادا کرنے والی ایشوریا رائے ہرتک روشن یعنی اکبر کو زرہ بکتر پہنا رہی ہوں، بس فرق اتنا تھا کہ اکبر کا کردار ادا کرنے والے ہرتک کے ہاتھ میں تلوار تھی اور وفاقی وزیر کے ہاتھ میں بیرون ملک سے درآمد شدہ پستول۔

حملے کے بعد سے ہی الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا پرتنقید کا سلسلہ جاری ہے مگر یہ معاملہ یکطرفہ تھا اور وفاقی وزیر کا موقف سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کچھ لکھنا مناسب محسوس نہیں تھا۔ آج ایک نجی ٹی وی پر فیصل واوڈا نے اپنے 23 نومبر کے انتہائی خطرناک قدم کا ایک گھنٹے تک بھرپور دفاع کیا تو میں نے سوچا کہ اس پر کچھ لکھ ہی دیا جائے۔

محترم وزیر کہتے ہیں کہ ان کے باپ دادا میں سے کسی نے کبھی سیاست نہیں کی تھی مگر یہ کررہے ہیں۔ انتہائی ادب کےساتھ سوال کرنا چاہتا ہوں کے وزیر محترم کو کس نے کہہ دیا کہ جو وہ کررہے ہیں اسے سیاست کہتے ہیں؟

ٹی وی پروگرام میں ہی وزیر موصوف نے ارشاد فرمایا کہ وہ ملک کی خاطر قلم چلانا جانتے ہیں اور وقت پڑنے پر بندوق اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، تو بھیا آپ توسیاست دان ہیں، آپ تویہی کہتے ہیں سو آپ کا کام ہے کہ اپنی حکمت سے ملک کو اتنا محفوظ بنادیں کہ آپ سمیت کسی کو بھی بندوق اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

پھر ہمارے قابل وزیر نے یہ بھی فرما دیا کہ کوئی پاگل ہی ہوگا جو شہرت کی خاطر گولیوں کی بوچھاڑ میں چلا جائے۔ وزیر محترم کی اس بات سے 100 فیصد متفق ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن وزیر صاحب آپ اسی شہر کے ایک حلقے سے مبینہ طور پر منتخب ہوئے ہیں۔  آپ کے پاس پانی کا قلم دان ہے اور آپ کے حلقہ انتخاب میں آج بھی لوگ پینے کے پانی کو ترستے ہیں۔  ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور مسلح افواج کے جوان الحمداللہ اس قابل ہیں کہ ملک و قوم کی حفاظت کی خاطر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

فیصل واوڈا صاحب آپ سے میڈیا کو شکایت اس لئے بھی ہے کہ اب آپ ڈیفنس کے کھلنڈرے نہیں جو کبھی زمزما اسٹریٹ پر پولیس موبائیلوں کو آگے پیچھے رکھ کر ہیوی بائیک پر شوبازی کریں یا ڈیفنس کی سڑکوں پر مہنگی گاڑیوں میں ریس لگائیں، آپ کو حملے کے مقام تک جانے کی اجازت صرف اس لئے ملی کہ آپ ایک وفاقی وزیر ہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے یا آپ کی خوش قسمتی بہرحال اس عہدے کا کچھ تو پاس کریں۔

سیانے کہتے ہیں کہ بہادی اور بے وقوفی کے بیچ صرف ایک باریک لائن ہوتی ہے لہذا  آپ کو مشورہ ہے کہ ایک قدم پیچھے ہی رکھیے گا۔


اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. بہت خوب استاد، وہاں تو تمام نمائشی پروگرام ہی چل رہا تھا، جنہوں نے اصل قربانی دی اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا انہیں سب بھول گئے، ہر افسر یہ جتانے پر لگا ہوا تھا کہ پہلے میں پہنچا تھا اور میں نے مقابلہ کیا

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.