میڈیا بحران اور بعض میڈیا کارکنان کا کردار
تحریر: شاہد انجم
درخت ٹوٹنے، ٹائر پھٹنے، پرندوں کے اُڑتے جھنڈ کے بارے میں بھی اس نے بتا دیا۔ یہ باتیں سن کر میں رات بھر سوچتا رہا کہ کل کیا منہ لے کر آفس جاؤں گا۔ دفتر کی انتظامیہ کے لوگ شاید مجھے حقارت کی ہی نظر سے دیکھیں گے، اس میں قصور کسی اور کا نہیں تھا بلکہ یہ آگ میرے اپنے رقیب کی لگائی ہوئی تھی جو کہ سستی شہرت کے لئے میرے بارے میں بدگمانی پیدا کررہا تھا اور انتظامیہ کے قریب ہونے کے لئے ہر حد پار کرنے کو تیار تھا۔
اسی لئے اس کے بارے میں انتظامیہ کے منہ سے اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں مگر وہ شاید یہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ اسے دلدل میں دھکیلا جارہا ہے اور اس کا محاصرہ تنگ کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ کبھی حالات خراب ہوں یا معاشی مشکلات پیدا ہوں تو اسے کسی دروازے پر بھی دستک دینے سے قبل سنجیدگی سے سوچنا پڑے کہ یہ دروازہ اس نے تو خود ہی بند کیا تھا۔
اس کہانی کو پڑھنے کے بعد موجودہ میڈیا بحران کا منظر نامہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مشرف کے دور اقتدار میں جب نجی ٹی وی چینلز کے لئے لائسنس کا اجراء کیا جارہا تھا اس وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ جن لوگوں کو لائسنس جاری کئے گئے تھے کیا ان میں بعض افراد صحافت اور صحافتی اقدار سے لاعلم تھے۔
اُس وقت ایک سینئر صحافی نے خبروں کی دوڑ سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک وقت وہ آئے گا جس میں گدھا گاڑی الٹنے، درخت کا تنا ٹوٹنے، شوہر اور بیوی کے درمیان تلخ کلامی کو بھی بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جائے گا۔ رفتہ رفتہ ان کی بات سچ ثابت ہورہی ہے مگر چند ماہ سے میڈیا بحران کا جو رونا رویا جارہا ہے اس میں ابھی تک یہ نتیجہ اخذ نہیں ہو پارہا کہ بحران کی اصل وجہ ہے کیا؟
نہ سمجھ آنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نجی ٹی وی چینلز میں ایسے افراد کو ملازمتیں دی گئیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے بہت احسن طریقے سے رقیب کا کردار ادا کیا۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے اپنے ساتھی ورکرز کی کردار کشی کر کے ان کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں تاکہ انتظامیہ سے شاباش حاصل کریں۔
اس سارے کھیل میں شاید وہ یہ بھول گئے کہ جس نے انہیں اس کام پر لگایا ہے وہ ان کے دوست نہیں اور آہستہ آہستہ انہیں اکیلا کر رہے ہیں جس کا اندازہ اب شاید میڈیا کارکنان کو ہوتا جارہا ہے۔ اس سازش نے صحافیوں کے باہمی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے اور سینکڑوں کارکنان کو ملازمت سے فارغ اور ایک بڑی تعداد کو پچھلے کئی ماہ سے اجرت سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
میڈیا کارکنان کو آج اس نکتہ پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اب بھی ایک جماعت نظر آئیں تو شاید یہ سب سے بڑی بریکنگ نیوز بن کر سامنے آئے۔
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئے!
ذرا سوچیئے ذرا سوچیئے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چند گھنٹے قبل شاباش شاباش کے الفاظ سننے کے بعد جب گھر جانے لگا تو کاغذ پر چند لکھے ہوئے الفاظ موصول ہوئے جن میں درج تھا کہ تمھاری کارکردگی سے انتظامیہ مطمئن نہیں اس لئے تمھارے بارے میں اب سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک نوجوان نے کل جب اطلاعات فراہم کیں وہ تم سے کہیں زیادہ جوشیلا لگ رہا تھا اور اس نے ماحول کو گرما بھی دیا اور اس کی تعریف بھی بہت ہورہی ہے۔
جواب دیںحذف کریںtalkshows