بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
تحریر: کاشف فاروقی
سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں تجاوزات کے خلاف بلدیہ عظمٰی کی بھرپور کاورائی جاری ہے، ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور اندر قائم تجاویزات کے خاتمہ کا خواب مجموعی طور پر بغیر کسی مزاحمت شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے اور کارروائی صدر علاقے سے نکل کر برنس روڈ، گلستان جوہر، گلشن اقبال اور دیگر تجارتی علاقوں میں پھیل چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں تجاوزات کے خلاف بلدیہ عظمٰی کی بھرپور کاورائی جاری ہے، ایمپریس مارکیٹ کے اطراف اور اندر قائم تجاویزات کے خاتمہ کا خواب مجموعی طور پر بغیر کسی مزاحمت شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے اور کارروائی صدر علاقے سے نکل کر برنس روڈ، گلستان جوہر، گلشن اقبال اور دیگر تجارتی علاقوں میں پھیل چکی ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل معاونت سے جاری اس کارروائی میں بہت سے ایسے کام بھی ہوگئے ہیں جن کے بارے میں سوچنا بھی کبھی خواب معلوم ہوتا تھا، برنس روڈ پر غیرقانونی طور پر تعمیر شدہ پانچ سو سے زائد دکانین مسمار ہوچکی ہیں اور پرانے شہر کی وہ سڑکیں جو کبھی پتلی گلیوں کے مناظر پیش کرتی تھیں، جن میں سے پیدل گزرنا بھی محال ہوچکا تھا، اب کھلی کشادہ شاہراہوں کی مانند سامنے آئی ہیں۔
اس تمام کارروائی کا یہ سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ سمجھتےتھے کہ کراچی میں جو تجاوزات قائم ہوگئیں سو ہوگئیں، اب انہیں کوئی ختم نہیں کرسکتا، اب وہ اپنی دکانوں کے باہر لگے آہنی چھجے ازخود ہٹارہے ہیں۔
کچھ لوگ اس کارروائی کو غریب عوام سے دشمنی گردانتے ہوئے اس کارروائی کو غلط نہیں تو نامناسب طریقے سے انجام دینے کا الزام عائد کررہے ہیں، ان کے خیال میں جو لوگ اس کارروائی سے متاثر ہورہے ہیں انہیں متبادل جگہ فراہم کی جانی چاہئیے مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں کہ صدر جیسے مصروف کاروباری مرکز میں واقع ایمپریس مارکیٹ میں دکان کا چھ ماہ کا کرایا 300 روپے جائز تھا؟
پہلے ناجائز دکان اور پھر اسی کے بالائی منزل پر گودام بنانا جائز تھا؟ اس گودام میں لاکھوں کروڑوں روپے کے خشک میوہ جات فروخت ہوتے تھے، مگر کبھی کسی کو خیال نہیں آیا، کے ایم سی والے بھی مال بناتے رہے۔ معاملہ فٹ پاتھ سے شروع ہوکر سڑک تک پہنچ چکا تھا، نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ کوئی تجاوزات کی شکایت اعلٰی حکام سے کردے تو کارروائی سے پہلے نچلی سطح کا عملہ خود ہی تجاوزات قائم کرنے والوں کو اطلاع دے دیتے تھے۔ سالوں سے قائم تجاوزات میں کاروبار کرنے والوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس شہر پر رحم کریں اور کاروبار جائز دکان میں منتقل کرلیں۔
بلدیہ عظمٰی کی کاروائی سے مطمئن سپریم کورٹ نے پہلے شہر کے پارکس پر قائم تجاوزات اور پھر سرکلر ریلوے کی زمین پر بھی تجاوزات کے خاتمہ کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہوں نے اس شہر میں چلنے والی اصل سرکلر ریل میں کئی مرتبہ سفر کیا ہے۔
ڈرگ روڈ سے ناظم آباد بڑا میدان کیلئے روانہ ہوتے تھے اور گلستان جوہر اور گلشن اقبال گیلانی ریلوے اسٹیشن سے ہوتے ہوئے شریف آباد اور پھر ناظم آباد پہنچا کرتے تھے، یہ حسین یادیں اب بھی ذہن کے کسی کونے میں محفوظ ہیں مگر گلستان جوہر میں پٹڑی کی جگہ اب نالہ بہہ رہا ہے۔
پارکس کی زمین پر چائنا کٹنگ کرکے گھر بنادیئے گئے ہیں، اب ان لوگوں کی مصیبت بھی آئے گی جنہوں نے یہ زمین اونے پونے خریدی اور گھر بنالئے۔ فروخت کرنے والے سے یہ سوال نہیں کیا کہ اتنی مہنگی زمین سستی کیوں بیچ رہے ہو؟ زمین کے کاغذات کہاں ہیںَ؟ لیز کیوں نہیں ہے؟ لیز کیسے ہوگی؟ لہذا ایسے لوگوں کی حمایت کا ارادہ رکھنے والے برائے کرم اتنا ضرور سوچ لیں کہ اگر کوئی ان کے گھر پر 20 یا 30 برس سے قبضہ کئے بیٹھا ہو تو زیادہ عرصہ گزر جانے کے باعث قبضہ جائز نہیں ہوجائے گا۔
کے ایم سی حکام بھی ایک مہربانی کریں کہ صدر و دیگر مصروف تجارتی علاقوں میں پارکنگ کا مناسب بندوپست کردیں تاکہ تجاوزات سے پاک کی گئی سڑکوں پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں کھڑی کرکے سڑکوں کو دوبارہ تنگ نہ کیا جاسکے، ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment