کارکردگی دکھاؤ، گنتی مت بڑھاؤ
تحریر: شاہد انجم
شہزادے کی آمد کے
بعد قلعہ کے اطراف میں سیکورٹی اس لئے بڑھا دی گئی کہ شہزادے کو مختلف ذرائع سے یہ
معلومات فراہم ہورہی تھی کہ قریب کی آبادیوں اور بازاروں میں لوٹ مار کی وارداتیں روز
بروز بڑھ رہی ہیں۔
شہزادے نے یہ اطلاع
ملنے کے بعد ایک پروگرام ترتیب دیا اور کہا کہ داخلی اور خارجی راستوں پر سخت پہرہ
لگایا جائے اور اپنے اپنے علاقوں میں سیکورٹی کے سربراہ اس کی نگرانی خود کریں گے اور
اگر ان کی ضرورت دوسرے علاقوں میں پیش آئے گی تو وہاں بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔
یہ تمام فیصلے صادر
فرمانے کے بعد شہزادہ خود بھی کبھی کبھار ذمہ داروں کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے نکل
پڑتا تھا اور اس کے اس خوف کے باعث سیکورٹی افسران و اہلکار کسی بھی حالت میں شاہراہوں
پر اپنے چہرے دکھانے پر مجبور رہتے تھے لیکن شہزادے کو کبھی شاید یہ اندازہ ہی نہیں
ہوسکا کہ جو چہرے اسے نظر آرہے ہیں وہ اندر سے کتنے کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔
شہزادے نے قلعہ
میں داخل ہوتے سیکورٹی اداروں کو یہ حکم جاری کیا کہ قلعہ کے اطراف میں آج سیکورٹی
اہلکار آٹھ گھنٹے تک گشت پر مامور رہیں گے اور خود جاکر نرم بستر پر خواب خرگوش کے مزے لینے لگ گیا۔ اچانک
شور شرابہ پر شہزادہ کمرے سے باہر نکلا پوچھا کیا ماجرا ہے جس پر قلعہ میں موجود ملازمِ
خاص نے بتایا کہ جناب سیکورٹی اہلکار نے فائرنگ کرکے دو افراد کو مار دیا ہے، مارے
گئے دونوں افراد عام شہری تھے اور کسی کام کے سلسلے میں جارہے تھے۔ انہیں رکنے کا اشارہ
کیا گیا اسی دوران سکیورٹی اہلکار اور ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور پھر جو ہوا
آپ کے سامنے ہے۔
سیکورٹی اہلکار
کو حراست میں لے لیا گیا ہے شہزادے نے بات سننے کے بعد سیکورٹی کے اعلیٰ افسران کو
طلب کیا اور پوچھا کہ آخر ایسا واقعہ کیونکر پیش آیا؟ سوال کے جواب میں
ہر سیکورٹی افسر کی طرف سے رائے دی گئی اور
فیصلہ یہ ہوا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکار کا فوری طبی معائنہ کرایا جائے۔
شہزادہ سیکورٹی
اہلکار کا طبی معائنے کروانے کے لئے راضی ہوگیا۔ طبی ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ واضح
کردیا کہ سکیورٹی اہلکار کو ذہنی اور جسمانی آرام نہ ملنے کے باعث وہ ذہنی بیمار ہوچکا
ہے لہذا اب وہ جان بچانے کی بجائے کسی کی بھی جان لے سکتا ہے۔ طبی ماہرین کی رپورٹ
دیکھنے کے بعد شہزادے کو یہ احساس ہوا کہ ہر انسان پر اتنا ہی دباؤ ڈالا جائے جتنا
کہ وہ برداشت کرسکے، اس لئے آج کے بعد میرے ان احکامات ختم نہ سمجھا جائے البتہ ڈیوٹی
میں کچھ وقت کی کمی کردی جائے تاکہ سکیورٹی اہلکار عوام کی جان و مال کی حفاظت خوش
اسلوبی سے کر سکیں۔
شہزاد ے کی اس کہانی
پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ڈیوٹی پر مامور پولیس
کے چھوٹے افسران و اہلکاروں کو بھی اسی طرح سے آٹھ سے دس گھنٹے تک شاہراہوں پر چیکنگ
کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی انہیں دوسری ڈیوٹی کے بارے
کہہ دیا جاتا ہے۔
کئی ماہ سے یہ سلسلہ
جاری ہے اور کئی ایسے واقعات بھی رونماء ہوئے
جس سے آپ کو سکیورٹی اہلکاروں کے ذہنی دباؤ کا اندازہ بھی ہوچکا ہوگا۔ بعض افسران و
اہلکار اب ذہنی بیمار نظر آنے لگے ہیں لہذا طبی ماہرین کی رپورٹ کو مشورے کے طور پر
دیکھتے ہوئے انہیں آرام کا وقت دیا جائے تاکہ وہ ہماری جان کے دشمن بننے کی بجائے ہمارے
جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment