سو روز کا وعدہ
تحریر: شاہد انجم
جھونپڑی کے باہر بیٹھا دس سالہ پپو اس انتظار میں تھا کہ کب ابو گھر آئیں اور مجھ
سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کی نوید سنائیں، ماں کی طرف سے بار بار پپو کو گھر کے
اندر بلانے کے لئے آواز آرہی تھی مگر پپو اس بات پر بضد تھا کہ اس سے ابو وعدہ کرچکے
ہیں کہ اس کی خواہشات کو بہت جلد پورا کردیا جائے گا۔
ابو کے وعدے میں اتنا جوش اور ولولہ تھا کہ پپو یقین نہ کرتے ہوئے بھی اعتماد کی
کرن کو پھوٹتے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی پپو کے چہرے پر اداسی اور آنکھیں
نم تھیں، شام ڈھل گئی ابو اپنے پرانے اور بوسیدہ لباس میں کندھے پر بیلچا رکھے گلی میں داخل ہوئے اور ان کی نظریں گھر کے دروازے
پر پڑیں تو دیکھا کہ لاڈلہ بیٹا جو اسے دیوتا سمجھتا ہے اپنی امیدیں پوری ہونے کا منتظر
ہے۔
باپ نے سر کو جھکا لیا تاکہ وہ ان سوالات کا جواب تلاش کر سکے جو وعدے وہ اپنے
بیٹے سے کرچکا تھا قریب آیا تو بیٹے نے اپنی امید بھری آنکھوں سے دیکھ کر سوال کیا
کہ بابا کیا ہوا آپ نے جو مجھ سے وعدے کئے تھے میرے وہ نئے کپڑے نئے جوتے اور اسکول
بیگ، آپی کے علاج کا بندوبست ہوا کہ نہیں؟
باپ کے پاس بیٹے کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے اس نے اپنے ارد گرد کے
لوگوں کو کوستے ہوئے بات ختم کرنے کو ہی مناسب سمجھا۔ کھانا کھایا اور کہا کہ پپو آؤ
سو جائیں صبح پھر جلدی اٹھنا ہے۔ باپ بیٹے کے سوالوں کا تو جواب نہیں دے پایا مگر بیٹے
نے باپ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ سوجائیں مجھے کون سا صبح اسکول جانا ہے۔
باپ نے بیٹے کا جواب سننے کے بعد شرمندگی کے باعث کروٹ لی اور تھکاوٹ کے باعث گہری
نیند میں خراٹے بھرنے لگا۔
پپو کی یہ کہانی بھی ملکی حالات جیسی ہے
عوام کو چار ماہ قبل ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں نے سہانے خواب دکھائے
اور تحریک انصاف نے عوام سے حکومت سنبھالنے کے بعد سو روز میں خوشحالی کا وعدہ کیا
جس میں ملازمتیں، گھر، صحت اور تعلیم کا کہا گیا مگر آج تقریباً تین ماہ گزر چکے ہیں
لیکن ابھی تک وعدے پورے ہونا تو کجا امید کی کرن بھی پھوٹتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔
جس طرح سے پپو کا باپ اس کو جواب دینے کے بجائے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو برا بھلا
کہتا ہوا دکھائی دے رہا تھا آج حکومتی اراکین بھی اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے
ہیں۔ اپنی کارکردگی اور عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے نہ کرنے پر شرمندگی کے بجائے اس
مقدس ایوان کے تقدس کو پامال کررہے ہیں جہاں غریب عوام کے ووٹ حاصل کرکے پہنچے ہیں۔
حکومتی اراکین کے اس رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی کوئی منصوبہ بندی
نہیں ہے بلکہ وہ بھی پچھلی حکومتوں کی روش پر گامزن ہیں جہاں اس قوم کے لئے کوئی مثبت
قدم نہیں اٹھائے جائیں گے اور وقت گزرنے کے بعد وہ بھی اسی طرح سے اس عوام کو یہ کہتے
ہوئے گزر جائیں گے کہ ہم کچھ کرنا بھی چاہتے تھے مگر ہمیں مختلف طریقوں سے روکا گیا۔
اگر ہمیں دوبارہ موقع ملا تو ہم آپ کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ذرا سوچئے، ذرا سوچئے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment