وادی کمراٹ، فطرت کے حسن کی جھلکیاں
سفر کہانی: از خیراللہ عزیز
۔ وادی دلنشیں کا سفر - پہلی قسط
شرینگل سے کمراٹ تک راستے میں کئی قصبےہیں لیکن پاتراک اور کل کوٹ نسبتاً بڑے بازار ہیں جہاں ضروریات زندگی کی تقریباًً تمام اشیاء دستیاب ہوتی ہیں۔
دشوار گزار سڑک پر ایوب کی ماہرانہ ڈرائیونگ نے ہمیں متاثر کیا، راستوں کی خرابی کا جتنا سنا تھا یہ سڑک اتنی خراب نہ تھی اور اس کا کریڈٹ سابق ایم پی اے محمد علی کو جاتا ہے۔ محمد علی نے بساط سے بڑھ کر کام کیا، اس کے باوجود حالیہ الیکشن میں معمولی مارجن سے ہارگئے۔
دائیں سے بائیں جانب خان جی، راقم السطور، اعجاز اور ڈاکٹر صاحب |
رات دس بجے ہم تھل بازار پہنچے، بھوک زوروں پر تھی۔ تھل سیاحتی مقام سے پہلے آنےوالا آخری بازار ہے، بیشتر دکانیں اور ہوٹل بند ہوچکے تھے، خوش قسمتی سے ہمیں ایک کبابچی مل گیا۔ (پشتو میں کباب والے کو کبابچی کہتے ہیں)۔ گرما گرم چپلی کباب اور چشمے کا ٹھنڈا پانی، آپ تصور نہیں کرسکتے کہ کتنا کھایا ہوگا ہم نے۔
ہمارے گائیڈ عمر خان، سادہ اور مخلص لیکن زیرک اور بردبار |
تھل بازار میں جا بجا بڑے ٹرک نظر آرہے تھے پوچھنے پر پتہ چلا کہ کمراٹ کی زمین آلو کی پیدوار کے لیے بہت موزوں ہے اور یومیہ ٹنوں کے حساب سے آلو لاہور سپلائی کیاجاتا ہے۔ مقامی آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بھی آلو ہے۔
یہاں کی قدیم جامع مسجد بہت مشہور ہے، تاریخی مسجد دیکھنے کی خواہش کا گلا دباتے ہوئے ہم آگے چل پڑے۔ تھل سے آگے سڑک کی حالت کافی خستہ تھی، کئی مقامات پر ہمیں گاڑی سے اترنا پڑا۔
رات بارہ بجے ہم قیام گاہ پہنچے، یہ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کا ریسرچ سینٹر تھا جہاں مہمانوں کے قیام کے لیے بہترین انتظامات تھے۔
تیمر گرہ میں شدید گرمی تھی لیکن جیسے جیسے ہم اوپر آتے گئے موسم بدلتا گیا اور کمراٹ کے دہانے پر واقع گیسٹ ہاؤس میں ہم کمبل اوڑھ کر سوگئے۔ ماحول کا اثر تھا یا کوئی اور پرسکون نیند، ہم علی الصبح جاگ گئے، نماز سے فراغت کے بعد تازہ ہوا کھانے لان میں آگئے۔
ڈاکٹر صاحب نامعلوم پھول پر ریسرچ کرتے ہوئے |
گیسٹ ہاؤس سڑک کے کنارے بنایا گیا ہے، دوسری طرف کچھ فاصلے پر دریائے کمراٹ بہہ رہا ہے۔ گیسٹ ہاؤس کے آس پاس ہوٹل اور دکانیں ہیں اس کے علاوہ وسیع و عریض رقبے پر آلو کے کھیت ہیں، تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوئے ہم وادی دیکھنے نکل پڑے۔ ویسے تھل بازار کے بعد کمراٹ پیدل گھومنے اور دیکھنے کی جگہ ہے، پیسے بھی ضائع نہیں ہوں گے اور لطف بھی زیادہ اٹھاسکتے ہیں۔
کمراٹ اس لحاظ سے دیگر تفریحی مقامات سے ممتاز ہے کہ یہاں میدانی علاقہ بہت زیادہ ہے، اگر پیدل گھومنے کا ارادہ کیا جائے تو تین سے چار دن لگ سکتے ہیں۔بھانت بھانت کے پھول، بیل بوٹیاں اور چشمے دیکھ کر دل کےکسی نہاں خانے میں یہ خواہش ضرور انگڑائی لیتی ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہیں کے ہوجاؤ لیکن دماغ فوری الرٹ ہوکر کہتا ہے اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔
کمراٹ کو دریافت کرنے کا سہرا صحیح معنوں میں عمران خان کو ہی جاتا ہے۔ عمران خان کے دورے کے بعد لوگ جوق در جوق اس وادی کا رخ کرنے لگے ہیں۔ اگر صرف سڑک بن جائے تو نہ صرف مقامی لوگوں کی مشکلات ختم ہوسکتی ہیں بلکہ سیاحوں کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔
ہمارا اگلا ٹھکانہ اسپین خان کا ہوٹل تھا، جہاں کچھ دیر آرام کرکے ہم نے آبشار کا رخ کرلیا۔
کمراٹ کی سفر کہانی کی یہ دوسری قسط ہے۔ آبشار کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں موج مستی،تورہ چینہ کیا ہے؟ ڈاکٹر کے قدم اگر لڑکھڑا جاتے تو خاں جی کا آگے جانے سے انکار، اعجاز کیوں بھڑک اٹھے؟ کمراٹ کی خواتین اور بچے، بکری کے دودھ کی چائے، گائیڈ عمر خاں کا پکول، یہ سب اور دیگر بہت کچھ تیسری قسط میں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
اس سفر نامہ کے لکھاری خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔ خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Ap ki tehreer ne kumrat jany ki dil mai khawaish paida kerdi
جواب دیںحذف کریںمصنف سے ٹوئٹر پر رابطہ کریں
حذف کریں