اندھا بانٹے ریوڑیاں

ASP Sohai Aziz criticized for being appreciated for nothing in handling Chinese consulate attack


تحریر: شاہد انجم

سخت سردی میں اوس سے دھلی دھوپ میں بیٹھے شیر اور شیرنی یہ سوچ رہے تھے کہ آنے والے وقت میں جنگل کا بادشاہ کون ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ وقت بدلے اور بادشاہت کا سکہ کسی اور کے نام کا جاری ہو جائے۔ اس سوچ بچار میں وہ اپنے بچوں کی طرف بھی متوجہ تھے جو تھوڑے فاصلے پر اپنی لڑک پن کی شرارتوں میں مصروف تھے۔  
سوچ ابھی مکمل طور پر سنجیدہ نہیں ہو پائی تھی کہ شیر نے دھاڑ ماری اور شیرنی کو متوجہ کیا جنگل کے کچھ اور جانوروں کے بچے ان کے بچوں کے قریب آکر کھڑے ہوگئے ہیں جنہیں فوری طور پر نہ  دبوچا گیا تو انکے دل و دماغ سے ہمارا خوف نکل جائے گا۔

فوری کارروائی کی گئی اور انہیں منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا مگر شیر اور شیرنی اب بھی مطمئن نہیں ہوپائے تھے اس لئے کہ ان میں خود اعتمادی ختم ہوچکی تھی اور وہ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے جانور تو کیا کسی اور شیر کے بچے بھی اس علاقے میں آکر اپنا دبدبا قائم کرسکیں لہذا کسی اور شیر کے بچے بھی اس علاقے میں آجاتے تو شیر اور شیرنی انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر نیم مردہ حالت میں اپنے بچوں کے سامنے پھینکتے تاکہ وہ خوف زدہ ہوکر ان کے بچوں کے سامنے اپنی آواز کو اونچا نہ  کرسکیں۔

شیر کی اس کہانی کو پڑھنے کے بعد مجھے گزشتہ روز کلفٹن کے علاقے میں چینی قونصل پر ہوئے  حملے میں تین دھشت گردوں کی ہلاکت اور پولیس اہلکاروں کی شہادت یاد آگئی دھشت گردوں نے مرکزی دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کے دوران دو پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا جبکہ عمارت میں موجود تیسرے اہلکار نے تینوں دھشت گردوں کو دلیری سے للکارا اور کمک کے پہنچنے تک ان کے ناپاک عزائم کو روکے رکھا۔

چند منٹ کے بعد پولیس اور رینجر کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اور دھشت گردوں کو للکارتے ہوئے انہیں انجام تک پہنچایا۔ اس واقعہ کے فوری بعد سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام سیاسی رہنماء بھی وہاں پہنچے اور جاتے ہی انہوں نے دھشت گردوں کے ہاتھوں شہید جوانوں کو سلام پیش کیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ ہمارے ان سپوتوں نے دھشت گردوں کے عزائم کو تو مٹی میں ملایا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی پر بھی کوئی حرف نہیں آنے دی۔

مگر افسوس کہ اس کے چند لمحوں بعد ہی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے سامنے پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے جو نقشہ پیش کیا گیا اس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دھشت گردوں کی اس کوشش کو ناکام بنانے میں اے ایس پی کلفٹن سہائی عزیز تالپور نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔

آئی جی سندھ کی وزیراعلیٰ کے سامنے کندھے پر تھپکی اور پھر دیگر افسران کی طرف سے ایک میڈیا پر بھرپور مہم کا آغاز کیا گیا اور اے ایس پی سہائی عزیز کو کیو پی ایم ایوارڈ دینے کی سفارش بھی کی گئی۔ شاید اعلیٰ افسران اس بات کو بھول گئے کہ جن میناروں پر کھڑے ہیں ان کی اصل بنیادیں کیا ہیں؟ وہ شاید اس بات کو بھی بھول گئے کہ حالت جنگ میں جو ایس او پی ہوتی اسے اے ایس پی نے مد نظر نہیں رکھا اسے کہتے ہیں کہ ناخن کٹواؤ اور شہیدوں میں نام لکھواؤ ۔

اس معاملے کے اصل حقائق کیا ہیں اس کے بارے میں یہاں ذکر ضروری ہے کہ اے ایس پی جس اسکول سے تعلیم حاصل کرکے آئی ہیں ان کی سفارش کرنے والے افسران بھی اسی اسکول سے ڈگری ہولڈر ہیں اور شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور قابل نہیں کہ اسے اس طرح کے اعزاز سے نوازا جائے چاہے وہ اپنے تن من دھن کی بازی ہی کیوں نہ لگا دے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بہت ہی محدود سوچ کے مالک ہیں حقیقت سے نظریں چرا کر ذاتی پسند اور ناپسند ہی ہماری ترجیحات رہ گئیں ہیں۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

  1. یہ بات شاہد انجم جیسے صحافی ہی کہ سکتے ہیں جنہیں دوسروں کی "بھلائی" کا کچھ خیال نہیں. میں نے ابھی ابھی اے آیس پی صاحبہ کی تصویر دیکھی ہے. میرے بس میں ہو تو میں انہیں نشان حیدر دینے کی سفارش کروں....

    جواب دیںحذف کریں
  2. حقیقت تو یہی ہے کہ حملہ ہوا اور وہاں موجود فارن سکیورٹی سیل کے پولیس اہلکار اور پکٹ ڈیوٹی پر موجود رینجرز کے اہلکاروں نے 15 منٹ کے اندر معاملات نمٹا دیے تھے، بعد میں تو صرف ڈرامہ ہی چل رہا تھا، باہر سے آنے والی نفری چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور پھر وہ ہوا جو ہر بار ایسی صورتحال میں ہوتا ہے، یعنی کسی نے ایک ہوائی فائرنگ کیا تو دوسری جانب سے چھ فائر کیے گئے ، مزید ایک گھنٹہ تو یہ ڈرامہ ہی چلتا رہا جسے باہر کھڑے لوگ دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ سمجھتے رہے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.