وادی دل نشین کا سفر

Temargra - a beautiful place for traveling and sightseeing - a travelogue in Safar Kahani by Khairullah Aziz
زمزم ہوٹل سے کلک، بےنظیربھٹو یونیورسٹی نمایاں ہے
سفر نامہ: از خیراللہ عزیز 

 ویسے تو خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کا ہرگوشہ زمین پر جنت ہے لیکن یار دوستوں  سے کُمراٹ کی بہت تعریف سنی تو اس سال کمراٹ  کا رُخ کرلیا۔

سفر  پر روانگی سے پہلے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن سب سے اہم ہے ہم سفر کا ہم مزاج ہونا۔  ہم کل چار دوست کراچی سے بذریعہ بس تیمرگرہ
(لوئر دیر  کا تحصیل ہیڈکوارٹر)کے لیے روانہ ہوئے ،راستے میں کیا  کچھ  دیکھا، کھایا  اور  ہوتا  رہا   اس کو بیان کروں گا تو  ایک کتاب لکھنی پڑے گی کیونکہ جب ڈاکٹر شیرمحمد خان  اور خلیل خان (خان جی)  آپ کے ساتھ ہو تو سفر اردو  کے  بجائے  انگلش والا ہوجاتا ہے۔ (یہ وہ خلیل خان نہیں جو فاختہ اڑایاکرتے تھے یہ ہمارے دوست فارماسسٹ کم ڈاکٹر ہیں)۔

 کراچی سے روانگی میں ابھی پانچ منٹ تھے جب خان جی  کو یاد آیا  کہ اس نے اس سفر کے لیےاپنے بھائی سے جو اسمارٹ فون  لیا ہے اس میں تو نینو سم لگتی ہے جبکہ وہ ابھی تک نوکیا  کے چودہ بٹنوں والا فون استعمال کرتا رہا ہے جس میں بڑی سم لگتی ہے۔ ہم نے وقت کی کمی کا احساس دلانے کی ناکام سی کوشش کی کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ  وہ ماننے والا نہیں۔

ہم نے  ڈاکٹر صاحب کو ساتھ کردیا تاکہ جلدی واپس آجائیں،
(ڈاکٹر صاحب بچپن سے وقت کے پابند ہیں) دونوں  کےنکلنے کے  کچھ ہی دیر بعد بس روانہ ہوئی ہم نے پائلٹ (انٹرسٹی بسوں  کے  ڈرائیور خود کو پائلٹ سے کم نہیں سمجھتے) سے کہا کہ ہمارے دو دوست رہ گئے تو اس نے  بڑے پیار سے کہا کہ دونوں سے کہو سہراب گوٹھ آجائیں ہم وہاں آدھے گھنٹے قیام کریں گے۔

Stay at Khairpur in Sindh province - a travelogue in Safar Kahani by Khairullah Aziz
دوران سفر خیرپور میں مختصر قیام

کراچی سے تیمرہ گرہ تک بس  کا سفر تقریباً چوبیس گھنٹے کا ہے  بارہ گھنٹے اس بحث میں گزرے کہ خان جی جو کہ ہیں تو  دراصل فارماسسٹ لیکن فارمیسی پر آئے مریضوں کو اپنی دوائیں بھی تجویز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ خان جی کی وجہ سے علاقے کے تمام ڈاکٹروں کا دھندہ مندی کا شکار ہے  اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو  وہ  کوئی اور پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے جبکہ خان جی کا کہنا تھا کہ وہ یہ کام مفت میں کرتے ہیں اور کسی کو انکار نہیں کرسکتے۔ اس نوک جھونک میں  سوتے جاگتے  سفر جاری رہا۔

 سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا  کے میدانی علاقوں میں  کہیں گنے کے کھیت تو کہیں دھان کی لہلاتی فصل کا منظر بہت بھلا لگ رہا تھا، خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے  ہم مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہوگئے (مالاکنڈ ڈویژن سات اضلاع پر مشتمل ہے، ضلع مالاکنڈ جو کسی دور میں مالاکنڈ ایجنسی ہوا   کرتا تھا،سوات، بونیر،شانگلہ، لوئر دیر، اپر دیر اور چترال)۔ 


قدرت نے ہر ضلع کو حسن دینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے، سرسبزوادیاں، پہاڑ، جنگلات، دریا، آبشار اور بل کھاتی خوبصورت سڑکیں۔ ہر ضلع ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ماضی قریب کی طرح چیک پوسٹ پر نہ تو لمبی قطاریں ہیں اور نہ ہی سخت چیکنگ ہے، امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے ساتھ ان سات اضلاع کے  رہائشیوں کی مشکلات میں بتدریج کمی آرہی ہے۔

بٹ خیلہ سے تیمرگرہ تک  ہم قدرتی مناظر میں ایسے کھوئے رہے کہ سفر کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اے سی بس میں سفر کرتے ہوئے جب ہم تیمر گرہ میں اترے تو تپتی دھوپ نے استقبال کیا، اگست میں ایسی گرمی کہ ہم کراچی کا مئی جون بھول گئے۔ لیکن اچھا ہوا کہ جلد ہی تیمر گرہ میں ہمارے میزبان  عبداللہ مدنی مل گئے۔ 

عبداللہ مدنی ہمیں تیمرگرہ پریس کلب لے گئے  جہاں سینئر صحافی حنیف اللہ اور میرے دیرینہ دوست  ہارون الرشید سےمیری پہلی  ملاقات ہوئی۔ ہارون الرشید سے پہلی شناسائی دوہزار پانچ میں ہوئی ہم ایک ہی ادارے میں کام کررہے تھے یہ تعلق صرف مواصلاتی رابطے تک ہی محدود تھا، اس دوران    ادارے بدلتے گئے لیکن ہمارا تعلق نہ ٹوٹا۔ پریس کلب میں دیگر صحافی دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ 

Temargrah Press Club - a travelogue in Safar Kahani by Khairullah Aziz
تیمرگرہ پریس کلب میں حنیف اللہ، ہارون الرشید اور عبداللہ مدنی کے ساتھ

تھکن اتارنے اور تازہ دم ہونے کے بعد  مقامی دوستوں نے دریا کنارے ایک خوبصورت ہوٹل میں  ظہرانے  کا اہتمام کیا تھا، ہم  تمام راستے احتیاط کرتےرہے  لیکن نمکین گوشت اور پلاؤ دیکھ کر ضبط کےبندھن ٹوٹ گئے۔ سب نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا۔  

اس دوران ایک نا خوشگوار واقعہ بھی پیش آیا  ہم قہوہ پیتے ہوئے  گپ شپ کررہے تھے کہ ہوٹل  میں زور دار دھماکا ہوا جس سے افرا تفری مچ گئی، ہمارے تو اوسان خطا ہوگئے کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑے لیکن لابی میں نکل کر پتہ چلا کہ سلنڈر کا دھماکا تھا  جس سے کچن میں آگ بھی لگی۔ ہم واپس ہال کی طرف آرہے تھے تو  خان جی اور ڈاکٹر صاحب کو غائب پایا ڈھونڈنے پر پتہ چلا کہ دونوں دھماکا سن کر مرکزی گیٹ سے بھی باہر نکل گئے تھے۔  کچھ ہی دیر میں فائرٹینڈر نے پہنچ کر آگ بجھائی۔ محض چند منٹ میں فائرٹینڈر اور ریسکیو عملے کے پہنچنے پر ہمیں ایک بار پھر خوشگوار حیرت ہوئی، ڈاکٹر صاحب نے اس کا کریڈٹ   عمران خان کو دیا۔ 

  عبداللہ مدنی نے ہمیں تیمر گرہ سے رخصت کیا۔ ہماری اگلی منزل شرینگل (اپر دیر)تھی جہاں پیارے دوست روحیل اور ایوب ہماری راہ تک رہے تھے، دریا کنارے بل کھاتی سڑک پر  پرائیویٹ کار میں یہ سفر انتہائی خوشگوار رہا۔ راستے میں رک کر گرما گرم بھٹے کھائے اور  ٹھنڈے چشمے کا فرحت بخش پانی پی کر پھر سے تازہ دم ہوگئے۔ 

تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بھر سفر کے دوران اعجاز خان دانشورانہ گفتگو سے ہمیں محظوظ کرتے رہے  جبکہ خان جی ہم پر اپنی جغرافیائی معلومات کا رعب جماتے رہے۔  گپ شپ لگاتے اور اطراف کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم شرینگل پہنچ گئے۔


شرینگل  میں  ایوب نے بمع پولیس اہلکاروں کے ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے وردی پوشوں کی بابت پوچھا تو جواب ملا کہ ہماری سکیورٹی کے لئے یہ ساتھ رہیں گے جس پر ہم معترض ہوئے کہ بھائی ہم یہاں تفریح کے لیے آئے ہیں آپ انہیں رخصت کیجیے۔

 کمراٹ روانگی سے پہلے روحیل نے چائے کا اہتمام کیا۔ سڑک کنارے  اونچائی پر واقع  یہ مہمان خانہ اپنی مثال آپ تھا،  ٹیرس سے نیچے  پہاڑی کے دامن میں نیلگو دریا اور آس پاس ہریالی، چہار سو  ایک خوبصورت منظرتھا۔  وقت کی کمی کے سبب ہم زیادہ دیر رک نہیں پائے۔  چائے نوشی کے بعد ہم نے کمراٹ کے لیے کمر کس لی۔ 

Shrengal Valley in KPK - a travelogue in Safar Kahani by Khairullah Aziz
شرینگل میں سستاتے ہوئے ڈاکٹرصاحب کلک لینا نہیں بھولے

(وادی کمراٹ کے حسن، ذرائع آمدن، لوگوں کے رہن سہن،زراعت اور ثقافت کی تفصیل اگلی قسط میں)



اس سفر نامہ کے لکھاری خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔ خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.