"یو ٹرن" تو اچھے ہوتے ہیں
تحریر: کاشف فاروقی
کل رات شادی کی
تقریب میں شرکت کے باعث دیر سے سویا، صبح تاخیر سے آنکھ کھلی، طبیعت بھی
بوجھل محسوس ہورہی تھی مگر دفتر جانا ضروری تھا لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی
تیاری کی اور دفتر کیلئے نکل پڑا۔
آدھے راستے میں
دھرنے کے باعث سڑک بند ملی تو "یو ٹرن" لیا اور گھر واپسی کی راہ لی۔
ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ یاد آیا کہ دفتر میں تو اہم میٹنگ ہے لہذا جانا ضروری
ہے سو پھر "یو ٹرن" لیا اور آفس جانے کے لئے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔
راستے میں یاد
آیا کہ میٹنگ تو اسسٹنٹ بھی کندکٹ کرسکتا ہے، یہ سوچ کر ایک بار پھر "یو
ٹرن" لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ مگر پھر یاد
آیا کہ میٹنگ کے اہم نکات تو میرے لیپ ٹاپ میں ہیں لہذا دفتر جانا ہی پڑے گا اور نہ
چاہتے ہوئے بھی پھر "یو ٹرن" لیا اور دفتر کی طرف چلا پڑا۔
راستے میں پھر
خیال آیا کہ میٹنگ کے نکات اسسٹنٹ کو ای میل کردیتا ہوں، طبیعت بھی کچھ بوجھل ہے
سو گھر جاکر آرام کرنا ہی بہتر ہوگا، اس لئے پھر سے "یو ٹرن" لیا اور
گھر کی جانب چل پڑا۔
مگر شاید گھر جانا
ابھی ممکن نہیں تھا کیوں کہ اسسٹنٹ نے تو گزشتہ روز ہی آدھے دن کی رخصت مانگی تھی،
اس غریب کو کچھ ذاتی کام تھا اور فی الوقت اس کو تنگ کرنا مناسب نہیں تھا، یوں ایک
اور "یو ٹرن" لینا پڑگیا۔
آپ لوگ ناراض
نہ ہوں۔
"یو ٹرن" تو اچھے ہوتے ہیں۔
لیکن اگر کوئی
گاڑی کا میٹر چیک کرے تو گاڑی صبح سے کئی کلو میٹر چل چکی ہے، فیول بھی اچھا خاصا
خرچ ہوگیا مگر عملاً منزل اب بھی کوسوں دور ہے اور اس "یو ٹرن" کے
کھیل میں گاڑی نہ دفتر پہنچ سکی اور نہ گھر۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment