قبر کون کھو دے گا


تحریر شاہد انجم

گاؤں اور شہر کی زندگی میں کچھ چیزیں مشترک اور بعض رسم و رواج بالکل مختلف ہوتے ہیں، موقع غم کا ہو خوشی کا دونوں میں واضح فرق بھی نظر آتا ہے، دیہات میں اکثر و بیشتر ایک ایسا ٹولہ جوکہ چار سے پانچ افراد پر مشتمل ہوتا ہے  دیگر لوگوں سے الگ ہی محفل جمائے اپنی زندگی گزارتا ہے، گاوں کے لوگ جوکہ کسی بھی بندھن میں بندھے تو ہوتے ہیں مگر اس ٹولے کو پسند نہیں کرتے بلکہ ان کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔

گاؤں میں چیمہ گوئیاں بھی کی جاتی ہیں کہ یہ ٹولہ نشے کا عادی ہے ان سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہوگا، اس ٹولے  کو برائی کا لبادہ اوڑھنے پر بھی گاؤں کے لوگ ہی مجبور کرتے ہیں مگر اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ گاؤں میں کسی بھی شخص کی ہلاکت کی خبر سن کر یہ ٹولہ سب سے پہلے غم زدہ خاندان کے گھر پہنچتا ہے اور بڑی عاجزی سے انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ قبر ہم کھودیں گے  اور مزے کی بات  اس پر کبھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا  آخر کیا وجہ ہے وہ کون ہیں جو اس ٹولے کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں  ان کے عزائم کیا ہیں کبھی کسی نے ان سے یہ سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

 گاؤں  کی اس کہانی میں آج بھی حقیقت نظر آتی ہے مگر اس کو  سامنے رکھتے ہوئے مجھے کراچی کے موجودہ حالات کچھ یوں نظر آرہے ہیں کہ جیسے ایک بار پھر شہر قائد میں خون ریزی کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے مگر دہشت گردوں کو لگام دینے یا ان کی سرکوبی کے لئے سیکیورٹی اداروں کا وہ نیٹ ورک اس وقت فعال نہیں ہے۔

 افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شہر قائد ماضی میں جن حالات سے گزرا اس وقت ان جرائم پیشہ اور دہشت گردوں سے لڑنے والے بعض افسران شہید ہوئے اور بعض کو اعلیٰ افسران نے رسوا کر کے کالی بھیڑوں کا خطاب دیا۔
آج ان افسران کا نام لینے والا کوئی نہیں۔

 میرا سوال یہ ہے کہ غلطی اس وقت ہوتی ہے جب کچھ کیا جائے یا  ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا غلطی ہے؟  اگر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر منافقت کے مضامین ہی لکھنے ہیں تو پھر آج جو کچھ ہو رہا ہے کوئی انہونی نہیں ہے اس لئے کہ گاؤں کے اس چار سے پانچ افراد کے ٹولے سے اگر نفرت کا اظہار اس طرح سے کیا جاتا کہ انہیں گاؤں سے نکال دیا جائے تو پھر یہ سوچنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوگئی تو قبر کون کھو دے گا لہذا اعلیٰ افسران کو بہت سنجیدگی سے  انا کےخول سے نکل کر  اپنے فیصلے واپس لینے پڑیں گے تاکہ شہر میں امن بحال ہوسکے، ذرا سوچئے۔  

1 تبصرہ:

  1. اچھا رائٹ اپ۔ بہترین انداز میں معاملے کی نشاندہی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.