ہم نے کمراٹ میں کیا دیکھا
تحریر:خیراللہ عزیز
آبشار جانے کی تیاری کررہے تھے کہ اسپین خان نے چائے آفر کردی،، ہمیں ناشتہ کرتے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری لیکن پرخلوص پیش کش اور نعمت خداوندی کو ٹھکرانا ہماری عادت نہیں۔ (اسپین خان ہوٹل کے مالک ہیں لیکن یہاں کے لوگ اتنے مادیت پرست نہیں گاہک کو مہمان سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں( ۔
آبشار جانے کی تیاری کررہے تھے کہ اسپین خان نے چائے آفر کردی،، ہمیں ناشتہ کرتے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری لیکن پرخلوص پیش کش اور نعمت خداوندی کو ٹھکرانا ہماری عادت نہیں۔ (اسپین خان ہوٹل کے مالک ہیں لیکن یہاں کے لوگ اتنے مادیت پرست نہیں گاہک کو مہمان سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں( ۔
چائے نوش کرکے ہم پیدل آبشار کی طرف چل پڑے جو نسبتاً بلندی پر واقع ہے یہاں امتحان تھا ہماری فٹنس اور اسٹیمنا کا، ساری زندگی کرکٹ کھیلنےوالا خانجی تو آدھے راستے میں ہانپنے لگا واش روم تک بھی بائیک پر جانے کا عادی اعجاز بھی ہمت ہارکر بیٹھ گیا جبکہ میں اور ڈاکٹرخود کو جواں ہونے کا یقین دلاتے ہوئے چلتے رہے، کچھ دیر میں ہم سب آبشار پہنچ گئے ۔
واپسی کے سفر میں چراہ گاہ میں بھیڑیں دیکھ کر اعجاز کی تو باچھیں کھل اٹھیں پہاڑی بھیڑ کےبچےکے ساتھ تصویر بنوائی ساتھ میں ممتا کا پیار دینے کی ناکام کوشش بھی کرڈالی۔
ہوٹل پہنچے تو سب بھوک سے نڈھال تھے اسپین خان نے کڑاہی تیار کر رکھی تھی نماز جمعہ کے بعد کھانا کھایا اور پھر فلک سے سرگوشیاں کرتیں درختوں کے درمیان کرسیاں ڈال کر میزبان اسپین خان اور گائیڈ عمرخان کے ساتھ گپ شپ کی نشست لگالی۔
اسپین خان نے ایک وقت کھانے اور چائے کا کوئی معاوضہ نہیں لیا بلکہ انہیں تو افسوس تھا کہ ملازم کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ ہمارے لیے مچھلی کا شکار نہ کرسکے۔ کمراٹ میں آپ جس ہوٹل یا کھابے پر کھانا کھائیں گے آپ کو ملنسار اور پرخلوص لوگ ملیں گے بل ادائیگی کے وقت تو آپ حیران رہ جائیں گے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے مہمان ہیں کوئی بات نہیں پھر دے دینا ایسے میں آپ کو مری کے وہ لٹیرے ہوٹل ملازم ضرور یاد آجاتے ہیں جو ہوٹل کے باہر کسی کو بنچ پر بیٹھنے بھی نہیں دیتے۔
اسپین خان اور عمر سے گپ شپ کے دوران علاقے کے مسائل پر بات چیت ہوئی۔ سڑک سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کے علاوہ علاقے میں صرف ایک پرائمری اسکول جبکہ ہائی اسکول بہت دور تھل بازار میں ہے، اسپتال نہیں ہے، سنجیدہ نوعیت کی بیماری یا ایمرجنسی کی صورت میں تیمرگرہ جانا پڑتا ہے جہاں تک پہنچتے پہنچتے مریض بیماری کے بجائے کٹھن سفر کے سبب اذیت سے مرجاتا ہے۔ علاقے کے لوگوں کو عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، اسپین خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کمراٹ کو ترقی دینے کا وعدہ کیا ہے اگر ایسا ہوگیا تو ہم انہیں وزیراعظم نہیں خلیفہ مانیں گے۔
پرخلوص،ملنسار اور بہت پیارے دوست روح الاسلام روحیل کے ساتھ جو دو دن ہمارے ساتھ رہے |
میزبانوں سے سنجیدہ گفتگو کے بعد ہم ہوٹل کے پاس ہی جنگل میں گھومنے نکلےتو پتہ چلا کہ کے پی حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود ٹمبر مافیا نے چوری چھپے بہت سے قیمتی درخت کاٹ کر بیچ ڈالے۔ دن ڈھل گیا تھا جب ہم نے گیسٹ ہاؤس واپسی کا قصد کرلیا۔
اگلے دن طلاع آفتاب کےخوبصورت منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم "تورہ چینہ" روانہ ہوئے (تورہ چینہ کا مطلب کالا چشمہ یا کالا پانی ہے، اگر چہ اس چشمے کا پانی شفاف ہے نہ معلوم کیوں اس کا نام کالا پانی پڑگیا)۔
جیپ میں سفر کرتے ایک مقام پر مقامی بچوں کو دیکھا تو ڈاکٹر اور اعجاز کے اندر کے فوٹوگرافر جاگ اٹھے اور گاڑی رکواکر تصویریں بنوائیں۔ پھول جیسی کمسن لڑکی نے گول مٹول بچے کو پشت پر باندھ رکھا تھا، خواب خرگوش کے مزے لیتے گڑے کے مانند اس بچے پر نقل کا گمان ہورہا تھا۔ یہاں خواتین بھی شیرخوار بچوں کو پشت پر لاد کر کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور یہ بچے دن بھر ماؤں اور بہنوں کی پیٹھ پر سواری کرتے نظر آتے ہیں۔ غربت کی چکی میں پستی ان خواتین کو نہیں معلوم کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں بڑے شہروں میں فیشنل ایبل خواتین بڑے بڑے ہوٹلز میں ان کے نام پر سیمینار کراتی ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں سے حقوق نسواں کے نام پر کروڑوں ڈالرز کے فنڈز اینٹھتی ہیں۔
کمراٹ میں جا بجا خواتین کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن فوٹوگرافی کا رسک ہم نہیں لے سکے۔ ان کی حالت زار پر افسوس کرتے ہوئے ہم تورہ چینہ پہنچے، جہاں اور بھی کافی سارے سیاح موجود تھے، چشمے کا پانی بےحد ٹھنڈا تھا اتنا ٹھنڈا کہ ہمارے لیے تیس سیکنڈ سے زیادہ دیر تک پانی میں ہاتھ رکھنا ممکن نہ رہا۔ چشمے کے ساتھ ہی گرما گرم پکوڑوں کا اسٹال لگاتھا۔ یہاں غیرمعمولی کچھ نہیں تھا بس تورہ چینہ کا نام سن کر لوگ تجسس میں کھنچے چلے آتے ہیں۔
ہم آگے بڑھتے گئے، ایک مقام پر ڈاکٹر صاحب کو مہم جوئی سوجھی اور دریا کنارے ایک پرخطرمقام پر عکس بندی کی خواہش کرڈالی، میں ڈاکٹر کی خواہش رد نہ کرسکا ۔
ڈاکٹر کی خواہش تو پوری ہوگئی لیکن شومئی قسمت اس دوران اعجاز آپہنچا اور ہم دونوں کی وہ کھنچا ئی کردی کہ ہمیں ہمارے ہیڈ ماسٹر سر صادق یاد آگئے جو غصے میں اپنی گیارہ نمبر کی چپل سے پٹائی کرتے تھے بمشکل ہم نے اعجاز کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
گائیڈ عمرخان نے ایک عزیز کے گھر سے ہمیں بکری کے دودھ میں بنی چائے پلائی۔ خالص دودھ اور معدنی پانی میں بنی چائے کا سے مٹرگشت کا مزہ دوبالا ہوگیا
وقت کی کمی اور شدید تھکن کے سبب مزید آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی اور ہم نے واپس ٹینٹ سٹی کا رخ کرلیا جہاں بہت سارے ہوٹلز کے ساتھ ساتھ لوگوں نے خیمے گاڑھ رکھے تھے، یہاں ہمیں کراچی،لاہور،پشاور،نوشہرہ اور مردان کےلوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
زیادہ ترہوٹل غیرمقامی افراد کے ہیں، سیزن میں یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، ہم آف سیزن میں گئے تھے لیکن اس کے باوجود چہل پہل خوب تھی۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا ہم نےآرڈر دیا تو خانجی نے منہ بنایا پتہ چلا ہم نے اس کی پسند کو نظرانداز کیا خانجی اس کھانے کو کھانا ہیں نہیں کہتے جس میں گوشت نہ ہو،، گوشت چاہے کسی بھی چیز کا ہو بس گوشت ہونا چاہیئے۔
اس سفر کی مزید روداد اگلی قسط ۔
سفرنامے کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
اس سفرنامے کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
سفرنامے کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
اس سفرنامے کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
Post a Comment