بحریہ ٹاؤن ملازمین کا احتجاج، تنخواہوں کا مطالبہ یا عدالت پر دباؤ ڈالنے کا کوئی حربہ ہے؟
خبر کہانی خصوصی رپورٹ
ملک کے انتہائی امیر بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کی فہرست میں شامل ملک ریاض بظاہر میڈیا مالکان سے متاثر نظر آتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن ملازمین اور کلائنٹس کے احتجاج پرعوام کے ذہنوں میں سوالات ہی سوالات ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اس لئےبحریہ ٹاؤن نے ملازمین کی کئی ماہ سے تنخواہیں روک لی ہیں تاکہ وہ احتجاج پر مجبور ہوں اور سڑکوں پر آئیں؟ اور کیا ایسا نہیں کہ بحریہ ٹاؤن ملازمین جب احتجاج کریں گے تو میڈیا کے نوٹس میں آئیں گے اور میڈیا ان کی تشہیر کرے گا؟ کیا ہمارے یہاں توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ پرانا چلن نہیں؟
بس یہاں ایک فرق ہے۔ میڈیا ملازمین کا احتجاج خبر نہیں ہوتی، باقی کسی کا بھی احتجاج خبر ہوتی ہے اور یہاں بظاہر اسی پہلو کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔میڈیا ملازمین چاہے وہ کسی بھی نیوز چینل میں کام کرتے ہوں، اگر ان کی کئی ماہ سے تنخواہیں روک لی گئی ہوں تو ان کااحتجاج کسی بھی ٹی وی چینل پر نشر نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی مخالف ٹی وی نیوز چینل ان کا احتجاج نشر کرتا بھی ہے تو انتہائی مختصر وقت کے لئے تاکہ اگر وہ کبھی یہ ہی حرکت کرے تو اس کی کوریج بھی نہ کی جائے۔
بول نیوز نے گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں روکی ہوئی ہیں۔ عدالت نے بول نیوز کی انتظامیہ کو تنبیہ بھی کی تھی کہ تنخواہیں ادا کی جائیں لیکن تاحال بول نیوز کے بیشتر ملازمین بغیر تنخواہ ملے ہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان کا احتجاج دبا دیا جاتا ہے اور کوئی ٹی وی چینل نہیں جو ان کا احتجاج نشر کرے۔
بحریہ ٹاؤن کا معاملہ ذرا ہٹ کر ہے۔ بحریہ ٹاؤن نیوز چینل نہیں لیکن نیوز چینلز کو مہنگے اشتہار دینے کی پوزیشن میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین احتجاج کررہے ہیں کہ ان کے پاس راشن لینے کے بھی پیسے نہیں ہیں وہ خبریں چلانے کے لئے فنڈنگ کیسے کرسکتے ہیں۔
خبریں نشر کرانے کے لئے تین طریقہ رائج ہیں۔ وہ واقعہ یا بیان خود خبر ہو۔ اس واقعہ یا بیان کو خبر بنانے کے لئے میڈیا پر دباؤ ڈالا جائے یا پھر میڈیا کو خبر بنانے کے لئے فنڈنگ کی جائے۔ بحریہ ٹاؤن کے معاملہ میں مبینہ طور پر آخری آپشن کئی بار استعمال کیا جاچکا ہے۔
کراچی کے تقریباً تمام ہی علاقوں سے برسوں سے تعمیر شدہ تجاوزات کا یکسر خاتمہ کیا گیا ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں دکانیں، مکانات، چھپر، پتھارے، خوانچے سب ہی کو ہٹا دیا گیا۔ ہزاروں افراد متاثر ہوئے جن کے خاندان کے افراد کو بھی شامل کیا جائے تو متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔
اگر کسی محلہ میں غریب شہریوں نے احتجاج کیا تو اس احتجاج کو طاقت سے کچل دیا گیا، کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا لیکن آپریشن نہیں روکا گیا۔ جب پورے شہر پر پانی پھیر دیا تو وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ تجاوزات کے نام پر لوگوں کو بے گھر نہیں کرنا چاہتے لہذا حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کردی۔
بہرحال، بحریہ ٹاؤن کا مسئلہ بھی بادی النظر میں صرف تجاوزات کا ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر پیچیدہ فراڈ کے ذریعہ زمین حاصل کرنے کا معاملہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے امیر گوگلز پہنے احتجاج کرتے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ اداروں کی نااہلی کا معاملہ ہے، اس میں مکینوں کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ تو جناب! غریبوں کی بستیوں کو گرایا گیا ہے، ان کے مکانوں، دکانوں کو گرایا گیا، تجاوزات کے نام پر خوانچوں اور پتھاروں کوضبط کیا گیا، یہ بھی تو اداروں کی نااہلی کا معاملہ تھا، اس میں ان کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟
تجاوزات، تجاوزات ہوتی ہیں، اوپر سے مبینہ فراڈ کے ذریعہ تجاوزات۔ اگر غریب کرے تو گناہ اور امیر کرے تو کوئی راستہ نکالا جائے، بے گھر نہ کیا جائے، بے روزگار نہ کیا جائے، جبکہ غریب کا چولہا بھلے ٹھنڈا ہوجائے کسی کو کیا پرواہ۔ میڈیا ملازمین نے تو کوئی تجاوزات نہیں کیں، ان کی تنخواہیں کیوں روکی گئیں ہیں اور اگر وہ احتجاج کریں تو ان کا احتجاج خبر نہیں۔
انصاف دینا عدالت کا کام ہے اور عوام کو امید ہے کہ وہ تمام معاملات جو میڈیا میں اجاگر ہوں یا نہ ہوں، عدالت ہر باعث تشویش معاملہ کا نوٹس لے گی اور امیر، غریب کو یکساں انصاف فراہم کرے گی۔
ملک کے انتہائی امیر بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کی فہرست میں شامل ملک ریاض بظاہر میڈیا مالکان سے متاثر نظر آتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن ملازمین اور کلائنٹس کے احتجاج پرعوام کے ذہنوں میں سوالات ہی سوالات ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اس لئےبحریہ ٹاؤن نے ملازمین کی کئی ماہ سے تنخواہیں روک لی ہیں تاکہ وہ احتجاج پر مجبور ہوں اور سڑکوں پر آئیں؟ اور کیا ایسا نہیں کہ بحریہ ٹاؤن ملازمین جب احتجاج کریں گے تو میڈیا کے نوٹس میں آئیں گے اور میڈیا ان کی تشہیر کرے گا؟ کیا ہمارے یہاں توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ پرانا چلن نہیں؟
بس یہاں ایک فرق ہے۔ میڈیا ملازمین کا احتجاج خبر نہیں ہوتی، باقی کسی کا بھی احتجاج خبر ہوتی ہے اور یہاں بظاہر اسی پہلو کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔میڈیا ملازمین چاہے وہ کسی بھی نیوز چینل میں کام کرتے ہوں، اگر ان کی کئی ماہ سے تنخواہیں روک لی گئی ہوں تو ان کااحتجاج کسی بھی ٹی وی چینل پر نشر نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی مخالف ٹی وی نیوز چینل ان کا احتجاج نشر کرتا بھی ہے تو انتہائی مختصر وقت کے لئے تاکہ اگر وہ کبھی یہ ہی حرکت کرے تو اس کی کوریج بھی نہ کی جائے۔
بول نیوز نے گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں روکی ہوئی ہیں۔ عدالت نے بول نیوز کی انتظامیہ کو تنبیہ بھی کی تھی کہ تنخواہیں ادا کی جائیں لیکن تاحال بول نیوز کے بیشتر ملازمین بغیر تنخواہ ملے ہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان کا احتجاج دبا دیا جاتا ہے اور کوئی ٹی وی چینل نہیں جو ان کا احتجاج نشر کرے۔
بحریہ ٹاؤن کا معاملہ ذرا ہٹ کر ہے۔ بحریہ ٹاؤن نیوز چینل نہیں لیکن نیوز چینلز کو مہنگے اشتہار دینے کی پوزیشن میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین احتجاج کررہے ہیں کہ ان کے پاس راشن لینے کے بھی پیسے نہیں ہیں وہ خبریں چلانے کے لئے فنڈنگ کیسے کرسکتے ہیں۔
خبریں نشر کرانے کے لئے تین طریقہ رائج ہیں۔ وہ واقعہ یا بیان خود خبر ہو۔ اس واقعہ یا بیان کو خبر بنانے کے لئے میڈیا پر دباؤ ڈالا جائے یا پھر میڈیا کو خبر بنانے کے لئے فنڈنگ کی جائے۔ بحریہ ٹاؤن کے معاملہ میں مبینہ طور پر آخری آپشن کئی بار استعمال کیا جاچکا ہے۔
کراچی کے تقریباً تمام ہی علاقوں سے برسوں سے تعمیر شدہ تجاوزات کا یکسر خاتمہ کیا گیا ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں دکانیں، مکانات، چھپر، پتھارے، خوانچے سب ہی کو ہٹا دیا گیا۔ ہزاروں افراد متاثر ہوئے جن کے خاندان کے افراد کو بھی شامل کیا جائے تو متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔
اگر کسی محلہ میں غریب شہریوں نے احتجاج کیا تو اس احتجاج کو طاقت سے کچل دیا گیا، کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا لیکن آپریشن نہیں روکا گیا۔ جب پورے شہر پر پانی پھیر دیا تو وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ تجاوزات کے نام پر لوگوں کو بے گھر نہیں کرنا چاہتے لہذا حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کردی۔
بہرحال، بحریہ ٹاؤن کا مسئلہ بھی بادی النظر میں صرف تجاوزات کا ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر پیچیدہ فراڈ کے ذریعہ زمین حاصل کرنے کا معاملہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے امیر گوگلز پہنے احتجاج کرتے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ اداروں کی نااہلی کا معاملہ ہے، اس میں مکینوں کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ تو جناب! غریبوں کی بستیوں کو گرایا گیا ہے، ان کے مکانوں، دکانوں کو گرایا گیا، تجاوزات کے نام پر خوانچوں اور پتھاروں کوضبط کیا گیا، یہ بھی تو اداروں کی نااہلی کا معاملہ تھا، اس میں ان کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟
تجاوزات، تجاوزات ہوتی ہیں، اوپر سے مبینہ فراڈ کے ذریعہ تجاوزات۔ اگر غریب کرے تو گناہ اور امیر کرے تو کوئی راستہ نکالا جائے، بے گھر نہ کیا جائے، بے روزگار نہ کیا جائے، جبکہ غریب کا چولہا بھلے ٹھنڈا ہوجائے کسی کو کیا پرواہ۔ میڈیا ملازمین نے تو کوئی تجاوزات نہیں کیں، ان کی تنخواہیں کیوں روکی گئیں ہیں اور اگر وہ احتجاج کریں تو ان کا احتجاج خبر نہیں۔
انصاف دینا عدالت کا کام ہے اور عوام کو امید ہے کہ وہ تمام معاملات جو میڈیا میں اجاگر ہوں یا نہ ہوں، عدالت ہر باعث تشویش معاملہ کا نوٹس لے گی اور امیر، غریب کو یکساں انصاف فراہم کرے گی۔
Government has to take land from them and gave it to the poor people from whom chaudhry riyaz has snatched
جواب دیںحذف کریں