اناڑی لکھاری کا تجربہ
تحریر: منصوراحمد
میرے دوست نے کہا
یار تم بلاگ کیوں نہیں لکھتے، میں نے پوچھ لیا کیسے لکھتے ہیں بلاگ؟
بس
پھر کیا تھا مشورہ دینے والا دوست یک دم فلسفی بن گیا ،عقل بند نےذہن پرزور
ڈالتے ہوئے ایسا منہ بنایا جیسے قبض ہو، اور منہ ٹیڑھا کرکے بولا ، بھائی بہت آسان ہے ، جو دیکھو، اس کو
سمجھو اور سادہ سے لفظوں میں تحریر کردو، لو جی ہوگیا بلاگ تیار، اتنی آرام سے تو بلاک
نہیں بنتا جتنی آسانی سے میرے دوست نے بلاگ لکھنے کا طریقہ بتادیا ۔
ہم نے بھی سوچا،،چلیں
آج بلاگ لکھ ہی ڈالیں۔ کاغذ قلم اٹھایا ،سوچ کے سمندر میں غوط لگایا لیکن سمندر بہت
گہرا تھا فوراً اوپر آنا پڑا، سانس رکنے لگا ڈوبنے کے ڈر سے نہیں ، یہ سوچ کر لکھیں
کیا؟
بہت غور وفکر کیا
،گھٹنوں پر زور دیا، دوست کی بات یاد آئی جو دیکھو وہ لکھ دو ، کیا دیکھا ،کیا دیکھا
،گھٹنے تھک گئے آئیڈیا نہیں آیا، ڈرامے دیکھیں، فلمیں دیکھیں،خود کو انڈر ورلڈ کا ڈان
بھی سمجھ لیا لیکن کم بخت آئیڈیا ایسے غائب ہوگیا جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔
دل ہی دل میں لکھنے
کا مشورہ دینے والے کو بھی دس سے بارہ گالیاں دیں اور انہیں ایک لاکھ سے ضرب دے کر
ثواب حاصل کیا لیکن قلم تھا کہ چلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ چائے کا ایک کپ پیا
۔ دیکھتے ہی دیکھتے دس سے بارہ کپ چائے کے پی لیے۔ آج تو غریبوں کی شراب نے بھی دھوکا
دےدیا۔ یہ شہید والی شراب نہیں ہے نہ ہی اس
میں زیتون کا تیل شامل کیا جاتا ہے، یہ تو پانی گرم کرو،چینی، پتی دودھ ڈالو، لو جی غریبوں کی شراب تیار، نہ بوتل
کا خرچہ نہ لےجاتے ہوئے پکڑے جانے کا ڈر۔
بات بلاگ کی ہورہی
تھی اور میں زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح چائے
پرروشنی ڈالنے لگا، سوچا ملک کے مسائل پر روشنی
ڈال لوں، پھر خیال آیا کس مسئلہ پر لکھوں ؟
اتنے بحران ہیں کسی ایک پر کیسے لکھوں ، بحران دربحران، اب کیا
کروں ،سنجیدہ موزوں پر تو ہرکوئی لکھ ہی لیتا ہے اور ایک ہم ہیں سنجیدہ موزوں سامنے
آتے ہی سمجھو موت پڑ گئی، سانس رکنے لگتا ہے۔ گھٹنوں میں درد شروع ہوجاتا ہے، ویسے
تو ہم بہت عقل بند قسم کے بندے ہیں،لیکن اتنی کم عقل کے باوجود کوئی خوف صورت سا آئیڈیا
ذہن میں نہ آیا۔
تنگ آکر کاغذ قلم
ایک طرف رکھ کر بیٹھ گئے اورسوچنے لگے بھائی
جس کا کام اس ہی کو ساجھے۔ بلاگ وہ ہی لوگ لکھ سکتے ہیں جو لفظوں کے سمندر میں ڈوب
کر الفاظ کے موتی جمع کرتے ہیں پھر ان موتیوں کو خوبصورت انداز میں تحریر کی مالا میں
پروتے ہیں اور ایک شاندار تحریر تخلیق کرتے ہیں ۔ ہم سے تو سوچنے کا کام کا کہنا ایسا
ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔
دوست کے مشورے پر
جب ہم نے کا غذ قلم اٹھایا تو خود کو بہت بڑا تیس مار خان سمجھنے لگے تھے لیکن اب لگ
رہا اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار لی ہو جیسے ۔ ارے
بھائی صاف اور سیدھی سی بات اناڑی تو اناڑی ہی ہوتا ہے۔ جو کام کرتا ہے اس کا
بیڑہ غرق ہی کرتا ہے تو ہم نے بھی وہ ہی کیا۔ سمجھ تو گئے ہوں گے آپ لوگ ہم سے زیادہ
سمجھ دار ہیں ماشااللہ۔ وہ کہتے ہیں سمجھدار کو اشارہ کافی اور کم عقل کو چارا۔
ہم کو اناڑی لکھاری
ہونے کا تمغہ سینے پر سجانا تھا سجا لیا، جو کرسکتے تھے کرلیا۔ اب کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے جو لکھنا تھا لکھ دیا۔ بلاگ نہیں ایک پیپر کا بلاک
ہی سہی ۔ اب بلاگ کے طور پر شائع ہو یا ردی کی ٹوکری میں جائے۔ اناڑٰی لکھاری ہیں،بلاگ لکھنے کا تجربہ بھی کرلیا،اچھا یا برا اس کا فیصلہ
تو پڑھنے والے ہی کریں گے۔
اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Mansoor..keep going on..u mj ziada koi or shayad hi janta ho k tm main likhny ki kitni salahiyat hy.yahn pe to hr koi aira ghaira natho khera apny ap ko writer samjhta hy..bt i know u have ability to write and u must be keep writing. God bless u my friend.
جواب دیںحذف کریں