بریکنگ نیوز
تحریر: منصوراحمد
میڈیا میں نیا بخار بریکنگ نیوز کے نام سے آیا اور چھا گیا، جس کو دیکھو اپنی پٹی لال کیے ہوئے بریکنگ نیوز چلانے میں مصروف ہے، نیوز روم میں شور کا عالم، فون کان سے لگائے بھاگے
جارہے ہیں پی سی آر کی جانب، کسی نے پوچھا بھائی ایسی کون سی آفت آگئی، جواب آتا ہے بریکنگ نیوز ہے،کوئی اور نہ آجائے، باس ہیں
فون پر، اور یہ جاوہ جا۔
کچھ دیر میں اینکر
چیختی چنگھاڑتی آواز میں بریکنگ نیوز دیتی ہیں، ڈر بس یہی ہوتا کہیں اس نیوز کو دینے
والی یا والے کے پھیپھڑے نہ پھٹ جائیں، اتنے زور سے بریکنگ نیوز دیتی ہے کہ سننے
والوں کے کانوں میں درد ہوجاتا ہے۔اینکر کا
بس نہیں چل رہا ہوتا خود جیمس بونڈ زیرو زیرو سیون بن کر وقوعہ پر پہنچے اور معاملہ
حل کردے۔
خیر جناب بریکنگ
نیوز ایک ایسی بیماری ہے جو الیکڑونک میڈیا سے کسی بلا کی طرح چمٹگئی ہے۔
اب دل کو روؤں یا جگر کو پیٹوں میں
بریکنگ نیوز آتی
ہے تو آفس میں ایک بھونچال سا آجاتا ہے۔ ہر کوئی ایک ٹانگ پر دوڑتا نظر آتا ہے، وہ بھی
اس ریس کا گھوڑا بن جاتا ہے جس کا پاؤں سال
بھر بھاری رہتا ہے۔ ویسے اگر ان کو پیدل چلنے کا کہہ دو تو سمجھو موت آگئی۔ آفس میں
کام کے دوران بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔
ہمارے آفس کے بھی
رنگ نرالے ہیں، صادق بھی ہے اور امین بھی، لیکن نہ صادق اپنے کام میں صادق ہے نہ امین۔ خیر کہاں بریکنگ نیوز اور کہاں صادق اور امین، ویسے دیکھا جائے تو نیوز میں بھی صادق
اور امین ہونا لازمی ہے۔ خبر سچ ہے جھوٹ ہے کیا ہے، تحقیق کے بعد ہی نشر کی جانی چاہیئے
لیکن کیا کریں اس بریکنگ نیوز والی آفت کا۔ ہم جیسے ناتجربہ کار بلکہ یوں کہہ لیں بےکار
صحافی نما کلرک اس بیماری سے بہت پریشان ہیں۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود اب تک اس بیماری
کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔
ہر میڈیا چینل دعویٰ
کرتا ہے سب سے پہلے خبر اس نے بریک کی، دیکھا جائے تو دو ملا میں مرغی حرام ہوجاتی ہے لیکن کیا
دو ملا میں مرغا حلال ہوتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب میں برسوں سے تلاش کررہا ہوں، مل نہیں رہا، جس طرح آج تک اس بات کا جواب نہیں ملا کہ دنیا میں پہلے مرغی آئی
یا انڈا۔ کسی بقراط، سقراط کے پاس اگر ان سوالوں کا جواب ہو تو ضرور ارسال کریں یا واٹس اپ کریں۔
واٹس اپ سے یاد آیا جب سے واٹس اپ آیا ہے زندگی مزید حرام ہوگئی ہے۔ کوئی کتا بھی مرجائے تو رپورٹر
حضرات واٹس اپ گروپ میں ڈال دیتے ہیں پھر کہتے ہیں بریکنگ ہے فوراً آن ایئر کرادیں۔ مگر کیسے بھائی، یا کیوں بھائی کا سوال کرنا تو
سمجھو جرم ہوگیا۔ ایسے لال پیلے ہوتے ہیں بتایا نہیں جاسکتا۔ پھر بہت اوپر سے آجاتے
ہیں، جس کے بعد کریں کہ نا کریں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کرنا ہی پڑتا ہے۔
میڈیا میں یہ تنخواہ
وہ واحد چیز ہے جو بریکنگ کی صورت میں نہیں آتی، ورنہ ہر خبر ہی بریکنگ ہے۔ کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بریکنگ نیوز نامی بلا کہیں پورے آفس کو ہی نگل جائے۔ گھر جاؤں
تو دماغ میں بریکنگ نیوز ہی چل رہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں نا کہ دن کو چین نہ رات کو آرام،
یہ کیسا ہم پر عشق کا جنون ہے۔ یہاں عشق غلطی سے آگیا۔
بس اتنا ہی کہوں گا اگر بریکنگ
نیوز آنا بند ہوجائے تو سمجھو ہم جیسے کلرک نما صحافیوں کی دال روٹی بند ہوجائے تو اپنی
دال روٹی پر توجہ دیں اور بےکار کی باتوں پر کان نہ دھریں۔
اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میڈیا میں نیا بخار بریکنگ نیوز کے نام سے آیا اور چھا گیا، جس کو دیکھو اپنی پٹی لال کیے ہوئے بریکنگ نیوز چلانے میں مصروف ہے، نیوز روم میں شور کا عالم، فون کان سے لگائے بھاگے جارہے ہیں پی سی آر کی جانب، کسی نے پوچھا بھائی ایسی کون سی آفت آگئی، جواب آتا ہے بریکنگ نیوز ہے،کوئی اور نہ آجائے، باس ہیں فون پر، اور یہ جاوہ جا۔
جواب دیںحذف کریںgeo news