مخلص پاکستانی؟

Former Chief Justice Saqib Nisar

تحریر: شاہد انجم

سرسبز وادی میں ہزاروں نفوس پر آباد بستی کے لوگ اپنی موج میں زندگی بسر کررہے تھے۔ انتظامی امور بھی اگر بہت بہتر  نہیں تو اتنے شورش زدہ بھی نہ تھے کہ اس علاقے کو انار کی زدہ قرار دیا جاسکے۔  ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق جی رہا تھا۔ امراء  اپنی راتوں کو رنگین بنانے کے لئے محفلیں بھی سجاتے تھے لیکن ان کی ان محفلوں کی وجہ سے دیگر آبادی والوں پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔

ایک روز چند امراء نے مل کر ایک حسین شام منانے کا پروگرام بنایا اور سرشام اپنے سازوسامان کے ساتھ محفل کی جگہ پر پہنچ گئے۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے اور انتظار تھا کہ کب مینا بائی آئیگی اور ہم اپنا پروگرام شروع کرسکیں گے کہ اچانک محفل میں چند لوگوں نے اپنے فیصلے کو تبدیل کیا اور کہا کہ آج محفل کے رنگ کچھ الگ ہوں گے۔

یہ چہ مگویاں ابھی جاری تھیں کہ گھونگھرو کی آواز کانوں میں پڑی اور محفل میں موجود بعض افراد کے منہ سے نکلا  زہِ نصیب۔ کچھ لوگوں نے اپنے گاؤ تکیے سنبھالے مگر بعض افراد نے اسرار کیا کہ مینا بائی آج مجرا نہیں کرے گی بلکہ آج وہ اپنے پر ستاروں کے لئے کھانا بنائے گی۔

یہ بات سن کر مینا بھائی کے پسینے چھوٹ گئے مگر وہ اندر سے خوشی محسوس کررہی تھی کہ آج اس کی ڈگر کہیں اور چل نکلی ہے اور شاید اس کے پرستار اب اس کا مجرا دیکھنے کی بجائے اسے دیگر کام کی ذمہ داری سونپ رہے ہیں ۔ اب جو اس کا اصل کام ہے اسے وہ نظر انداز کرتے ہوئے  دیگر کام کرے گی۔

مینا بھائی کی اب یہ عادت بن چکی تھی کہ وہ اپنا کام کرنے کی بجائے دوسروں کے کام پرزیادہ توجہ دینے لگ گئی تھی اس کی اس عادت اور اپنے کام کو نظر انداز کرنے کے باعث انتظامی امور میں بہت خلل پیدا ہونے لگا تھا اور آہستہ آہستہ  اس کے پرستاروں نے  بھی اس کے بارے میں غلط رائے قائم کرنا شروع کردی تھی۔

مینا بائی کے اس کردار کی کہانی سن کر مجھے سابق چیف جسٹس  آف پاکستان میاں ثاقب نثار کےبارےمیں یاد آگیا کہ انہوں نے اپنے دور ملازمت کے دوران اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے کام کرنے کی ناکام کوشش کی جس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی چال بھی بھول چکے تھے۔  

ان کی روش کے باعث ان کے اپنے ادارے کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے افسران بھی ان سے سخت نالاں نظر آتے تھے بلکہ بعض کا تو یہ کہنا تھا کہ وہ اپنا  کام خوش اسلوبی سے کرلیں تو بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے اپنی ان عادات کو نا چھوڑا اور لاتعداد شرفاء کی پگڑیاں اچھالیں۔ انہوں نے خود کو مخلص پاکستانی اور دوسروں کو بدعنوان ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ مخلص پاکستانی پاک سر زمین پر کب تک اپنا بسیرا کرتا ہے۔ 



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.