خوبصورت تعبیر کے لیے بھیانک خواب سے گزرنا تو پڑے گا
تحریر: عبید شاہ
یہ خلافت عباسیہ کا دور ہے ملکہ زوجہ
خلیفہ ہارون رشید بہت پریشان ہیں، ایک خواب اُسے بہت بےچین کیئے ہوئے ہے۔ اپنی کنیز خاص کو بلواکر ملکہ المعروف زبیدہ اس کے
کان میں سرگوشی کرتی ہے۔ کنیز کا رنگ سرگوشی سن کر فق ہوجاتا ہے، ملکہ کہتی ہے جاؤ
علامہ محمد ابن سیرین سے اس کی تعبیر پوچھ
کر آؤ۔
کنیز جانے لگتی ہے تو ملکہ آواز
دیتی ہے سُنو میرا نام نہ لینا کہنا یہ خواب تم نے دیکھا ہے، جی کنیز کے منہ سے
حیرت سے یہی الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ ملکہ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ اپنی عبادت گزار
اور نیک ملکہ کی حالت دیکھ کر کنیز یقین دہانی کے ساتھ مشہور تابعی علامہ محمد ابن
سیرین کے پاس پہنچتی ہے اور ملکہ کا خواب اپنا کہہ کر بیان کرتی ہے۔
ابن سیرین کے آنکھوں کی روشنی
جاچکی ہے لیکن علم کی روشنی میں وہ بہت دور تک دیکھ لیا کرتے تھے ۔کنیز سے مخاطب
ہوئے اور کہا بی بی یہ تمہارا خواب نہیں جس کا ہے اُسے بھیجو کنیز ،حیران ہوکر لوٹ آئی اور ملکہ
زبیدہ کو واقعہ سنا ڈالا۔ ملکہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا لیکن وہ اس خواب
کی تعبیر جانے بنا رہ بھی نہ سکتی تھی لہذا ابن سیرین کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
علامہ نے اپنا
خواب بغیر کسی اضافہ اور کمی
کہ بیان کرنے کو کہا تو پرہیزگار ملکہ اپنی نگاہ کو زمین میں گاڑے خواب بیان
کرتی ہے کہ اُس نے دیکھا ہے کہ بہت سے مرد اُس کے ساتھ ہمبستری کر رہےہیں۔
یہ سنکر ابن سیرین نے فرمایا ملکہ العزیز
اداس نہ ہوں، تیرا خواب اچھا ہے اس کی تعبیر ہے کہ پروردگار تجھ سے خدمت خلق کا
ایسا کام لے گا جس سے آنے والی کئی صدیوں تک خلق خدا مستفید ہوتی رہے گی اور تیرے
حق میں دعا کرے گی بہت سے لوگوں کا تجھ سے زیادتی کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ تیرے
اچھے اور خلق خدا کے لیئے کیئے جانے والے اقدامات لوگوں کے راحت سکون آرام
اور آسانی کا باعث ہوں گے، لہذا تیرا خواب کے منظر سے مضطرب ہونا صحیح نہیں ملکہ
کو تسلی ہوئی اور وہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کر کے روانہ ہوگئی۔
کچھ عرصے بعد ملکہ حج کے لیئے مکہ
مکرمہ کا سفر کر رہی تھی کہ ملکہ زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل
مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ
میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف
علاقوں سے ماہر انجینئرز بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی
حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ
دینار خرچ ہوئے۔
جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع
ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس كام کا حکم دیا
ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں
کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا،
سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی۔ تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ
تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف
انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کر دو، خواہ کدال کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ
آتا ہو۔ اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے
اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے
واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر
دریا برد کر دیا اور کہنے لگیں۔
” الٰہی! میں نے دنیا میں کوئی حساب
کتاب نہیں لینا، تُو بھی مجھ سے قیامت کے دن کوئی حساب نہ لینا “ نہر کا نا م ”عین المشاش“ رکھا گیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ
کو اس کا یہ عمل ایسا پیارا لگا کہ یہ نہر “ نہر زبیدہؒ ” کے
نام سے ہی مشہور ہو گئی ۔
یہ تو تھی ایک ملکہ کے بھیانک خواب
کی حسین تعبیر لیکن میرے شہر میں ایسے خدمت گزار بھی گزرے ہیں جن کے حسین خوابوں
کی تعبیر انتہائی بھیانک رہی ہے۔ انبیا کی سنت خلق خدا کے استحصال کے لیئے استعمال
کی گئی اس شہر نے لا چار مریضوں کو لیجانے والی ایمبولینسز سے ہتھیاراُگلتے ہوئے
دیکھے تو بلاتفریق مذہب سب کی جیبوں سے فطرہ نکلتے ہوئے بھی دیکھا۔
جنہیں زخموں پر مرہم رکھنے والے
ہاتھ سمجھے ان ہاتھوں نے خلق خدا کے ساتھ خیانت کا بازار گرم رکھا تین ارب سے ذائد
مالیت کی44 جائیدادیں بنائی گئیں تو اربوں روپے کی منی لانڈرنگ بھی کی گئی
جائیدادیں ضبط ہیں فروخت نہیں کرسکتے صرف کرایہ وصول کرسکتے ہیں۔ یہ کرایہ
تنظیمی شہیدوں کے ورثا کو بھی ملے گا ۔
تعبیر بتانے والے کہتے ہیں کراچی سے
لندن تک کھودی گئی منی لانڈرنگ کی نہر بند نہ ہوگی اور مقتدر حلقہ اس سے
فیضیاب بھی ہوتا رہے گا بس اب انہیں ایک بھیانک خواب سے گزرنا ہے تاکہ تعبیر
خوبصورت بنائی جاسکے۔
اس
تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان
سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment