چمن ایسے نہیں کھلتے

Chaman aisy nahi khiltay - by Shahid Anjum

تحریر : شاہد انجم

رات کے پچھلے پہر یاد آیا، ایسی کروٹ ناسردی کی شدت کا احساس اور نا گرمی کی حدت کا احساس دامن پر کپڑے ہیں یا کفن کبھی احساس تک نہیں ہوا۔ بس ایک لگن وطن کی مٹی بھینی بھینی خوشبو سونگھنے کے لئے صبح صادق کا انتظار رہتا تھا، دوستوں کی محفل میں ایک ہجوم ہونے کے باوجود بھی کیا کمی تھی، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

جب آپ اپنے خونی رشتوں سے دور ہوتے ہیں، بچپن میں اسکول کی چھٹی سے جو خوشی ملتی تھی جوانی کے دنوں میں اس کا احساس اس وقت ہوتا تھا جب ہفتے میں دو روز اپنے اہل خانہ سے چند لمحوں کے لئے کھڑ کھڑاہٹ والے ٹیلیفون پر دبی ہوئی آواز میں صرف اتنا سنائی دیتا تھا کہ ہم ٹھیک ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، آپ کیسے ہیں؟ اپنا خیال رکھنا، جس کے بعد ان الفاظ کو اپنے دماغ میں سمو کر تاروں بھری رات میں یاد کرتے رہنا روزانہ کا مشغلہ بن چکا تھا۔

چار روز کے بعد سنی جانے والی اس آواز سے میرے حوصلے ان پہاڑوں سے بھی کئی گناہ زیادہ بلند ہوجاتے تھے جن کے درمیان میں میرا بسیرا تھا، یہ حوصلے اس لئے بھی بلند تھے کیوں کہ میں نے اس وطن کی مٹی سے وفا کی قسم کھائی ہے، میں نے اپنی بہنوں اور ماؤوں کی عزت کی رکھوالی کی قسم لی ہے، میں نے اس ملک کے معصوم بچوں کا سائباں بننے کی قسم کھائی ہے، میں نے اس مٹی کے بزرگوں کے حوصلے بلند رکھنے کی قسم کھائی ہے اور میں نے اس ملک کے نوجوان سے کندھے سے کندھا ملا کر دشمنوں سے لڑنے کی قسم کھائی ہے۔

میں اس وقت تک اس سبز ہلالی پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گا جب تک میرے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے اور مجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے کہ میں کامیاب لوٹوں گا مجھے یہ فکر کبھی نہیں رہی کہ میں غازی بنوں گا یا شہید کہلاوں گا۔

یہ کہانی ایک سچے پاکستانی سپاہی کی ہے جو کئی ماہ تک وزیرستان کے پہاڑوں میں دشمن سے لڑتا رہا صرف اس لئے کہ اس کے ملک کے باشندے پرسکون زندگی گزار سکیں کئی ماہ تک اس نے اپنے بوڑھے ماں باپ، بہن بھائیوں اور  بیوی بچوں کے چہرے تک نہیں دیکھے مگر اس کا ضمیر اتنا مطمئن تھا کہ جب وہ اس جنگ کے اختتام پر گھر واپس لوٹے گا، اسے غازی کی شکل میں دیکھ کر لوگ کتنے مطمئن اور خوش ہوں گے اور اگر پاک سر زمین کے لئے شہادت نصیب ہوگئی تو انتظار کرنے والوں کا سر فخر سے بلند ہوجائے گا۔

میرے ملک کو میلی نظر سے دیکھنے والو! چمن ایسے نہیں کھلتے؟ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہ کانٹوں کی سیج ہے کوئی پھولوں کا بستر نہیں، کیا تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اللہ کے سپاہی ہیں، ان کی رگوں میں مسلمان کا خون دوڑ رہا ہے۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. میرے ملک کو میلی نظر سے دیکھنے والو! چمن ایسے نہیں کھلتے؟ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہ کانٹوں کی سیج ہے کوئی پھولوں کا بستر نہیں، کیا تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اللہ کے سپاہی ہیں، ان کی رگوں میں مسلمان کا خون دوڑ رہا ہے۔
    Join Pak Army

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.