غریب کی تنخواہ اور حالات
تحریر: منصوراحمد
دنیا
کتنی عجیب ہے جن دنوں ساری دنیا کے نوکری پیشہ افراد خوش ہوتے ہیں وہیں کچھ ہم جیسے
لوگ بھی ہیں جو ان دنوں اپنی غربت کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مہینے کا آخر
ابھی کوئی فرمائش نہ کرنا ہم کہہ رہے ہوتے ہیں
یار مہینے کا شروع ہے ابھی کوئی فرمائش نہ کرنا، ہے نا عجیب سی بات !
کہتے
ہیں نا میڈیا کی دنیا ہی نرالی ہے ،کہیں پیسوں کی بھرمار ہے تو کہیں تنخواہ کے لالے
پڑے ہیں۔ کوئی اٹھائیس تاریخ کو ہی مہینے
کی تنخواہ حاصل کرلیتا ہے اور کوئی دس تاریخ کو بھی دعا کررہا ہوتا ہے کہ کل تنخواہ آجائے بچے کی فیس بھردے گے
، گھر کا کرایہبھی جمع ہوجائے گا، گیس اور
بجلی کے بل ادا کرنے ہیں۔
ہمارے
اکاؤنٹ میں تنخواہ آتی نہیں اور لوگوں کے اوکاؤنٹس میں کڑوروں روپے آجاتے ہیں۔ ہائے
کون ہیں وہ خوش نصیب ۔۔۔ ہم جیسے جنم جلوں
کو تو کوئی ہزار روپے ادھار دینے کو تیار نہیں ،پھر بھی ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں
جن کو مہینے میں ہی تنخواہ مل ہی جاتی ہے۔ بہت سے ہمارے ساتھی ایسے بھی ہیں جو مہینوں
سے کام کررہے ہیں لیکن تنخواہ سے محروم ہیں، سوچیے ان کے گھر میں کیا حالات ہوں گے،
کیسے گزربسر ہورہی ہوگی، آفس کیسے آجا رہے ہوں گے، کرائے کے یا پیٹرول کے پیسے بھی
دوستوں رشتے داروں سے ادھار لے رہے ہوں گے، دل کٹ جاتا ہے یہ سوچ کرہی۔ اللہ کسی کو
ایسا وقت نہ دکھائے۔
بےروزگاری
کا یہ عالم ہے اگر کوئی شخص احتجاجاً نوکری چھوڑ جاتا ہے تو دس لوگ لائن میں اس نوکری
کے لئے لگے ہوتے ہیں، میڈیا میں کریک ڈاون کے نام آئے دن صحافیوں کو نکالا جانا ایک عام چلن
بن گیا ہے،صحافی بےچارہ جس کی زندگی خبر سے
شروع ہوکر قبر پر ختم ہوجاتی ہے ان کی جاب سیکیورٹی کے لیے ملک میں کوئی قانون نہیں۔
کہنے
کو صحافت ملک کا چوتھا ستون کہلاتا ہے لیکن اس ستون کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو
سوتیلی ماں بھی اپنے بچے سے نہ کرے۔ کیا کوئی صحافیوں کے لیے آواز اٹھائے گا، کوئی
پینشن نہیں ،کوئی گریجوئٹی نہیں، کوئی پروی ڈنٹ فنڈ نہیں، کوئی اوورٹائم نہیں، پھر
بھی یہ صحافی عید ہو بقر عید ہو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔
ان کے ساتھ ایسا رویہ سمجھ سے باہر ہے۔
میڈیا
لائن میں ایک اور چیز کا بھی مشاہدہ کیا کہ اس لائن میں چاپلوسی کو بامِ عروج حاصل
ہے۔ جو اس ہنر سے واقف ہے وہ واقعی بہت عروج پاتا پے ورنہ لائن میں لگے لگے سڑ جاتا
ہے۔ چاپلوسی کے ہنر مند بہت آگے نکل جاتے ہیں اور کام کرنے والے بہت پیچھے رہ جاتے
ہیں۔ اس پر حکومت اور دل جلاتی ہے اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان کردیتی ہے، بھائی
کہاں ہیں وہ ایک کروڑ نوکریاں؟ کیوں لوگ بنا تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہیں؟ عوام
کو ایسے سنہرے خواب کیوں دکھائے جاتے ہیں جو پورے نہیں ہوتے؟
غریب
آدمی بینک سے کاروبار کے لئے لون نہیں لے سکتا ، دس ہزار شرائط اس پر لاگو کردیں جاتیں
ہیں غریب کرے تو کیا کرے۔ حکمرانوں کے لئے اربوں کے قرضے معاف کرنے والوں کے پاس ایک
غریب آدمی کو دینے کے لئے پانچ لاکھ کا لون تک میسر نہیں۔ پھر کہتے ہیں تبدیلی آرہی
ہے بھائی کہاں سے آرہی ہے، کون سی ٹرین سے آرہی ہے کہیں وزیر ریلوے شیخ رشید کی ٹرین
سے تو نہیں آرہی جو تاخیر کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
خیر
قصہ مختصر ملک ڈیل اور ڈھیل سے باہر نہیں آرہا۔ این آر او اور نا رو کی بازگشت کے سوا
ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم کی ایک ہی گردان کسی کو این آر او نہیں دیں
گے بھائی آپ سے این آر او مانگ کون رہا ہے چھ ماہہوگئے این ار او کی گردان کو سنتے سنتے۔ میں شرطیہ کہنے کو تیار ہوں اسی فیصد
عوام کو این آر او کا مطلب بھی معلوم نہیں
ہوگا، اس پر طرہ این آر او نہیں دیں گے بھائی مت دو ۔ قومی مفاہمتی آرڈیننس لے لیجئے، میں نے
ہی این آر او کا مطلب بتادیا۔
ملک
کے یہ حالات ہیں کہ گیس مہنگی ہونے کے بعد غائب ہوگئی۔ عوام گیس کا بل دیکھ کر چولہا
جلانے کے بجائے اپنا دل جلا رہے ہیں۔ بجلی گمشدہ ہے۔ پانی کہیں لاپتہ، ڈیم بنانے والے
بھی غائب ،سڑکوں کا برحال ہے، گندی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں قانون نام کو نہیں، اور دعوی
کیا جاتا ہے ریاست مدینہ کا، عوام کے مسائل
بڑھتے جارہے ہیں، وسائل ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
خیر
بات غریب کی تنخواہسے شروع ہوئی اور ایک بار
پھر ملک کے حالات کی طرف چلی گئی۔ بس یہ کہوں گا
وقت سے پہلے نہیں اور نصیب سے زیادہ نہیں۔ جو کام ہے اس میں ہی دل لگاؤ، ملک
کے حالات جیسے تھے امید کرنی چاہیئے اچھے ہوجائیں۔ فضول تبصروں سے پرہیز کریں اور اپنا
کام دل جمعی سے کریں۔
اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا کتنی عجیب ہے جن دنوں ساری دنیا کے نوکری پیشہ افراد خوش ہوتے ہیں وہیں کچھ ہم جیسے لوگ بھی ہیں جو ان دنوں اپنی غربت کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مہینے کا آخر ابھی کوئی فرمائش نہ کرنا ہم کہہ رہے ہوتے ہیں یار مہینے کا شروع ہے ابھی کوئی فرمائش نہ کرنا، ہے نا عجیب سی بات !
جواب دیںحذف کریںnon siasi