ذمہ دار کون


تحریر شاہد انجم

موذی امراض پھیلنے کے بعد بہت سارے خطرات منڈلا رہے تھے، بیماریوں کے سدباب کے لئے کوئی بھی مسیحا دور دور تک نظر نہی آرہا تھا، کسی کو یہ تک معلوم نہیں ہو پارہا تھا کہ آخر اس اندھیری رات کا خاتمہ کب ہوگا اور خوشگوار صبح کا سورج کب طلوع ہوگا۔ امراض سے نمٹنے والے لوگ مریضوں کو بسترمرگ پر چھوڑ کر اپنے نرم بستروں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔

  چڑیا جب گھونسلے میں خوراک کا بندوبست کر کے واپس آئی تو دیکھا کہ تین بچوں میں سے دو کی حالت بہت خراب ہے چڑیا اس سوچ میں پڑ گئی کہ اگر دونوں بچوں کو دوا نہ ملی تو وہ مر جائیں گے اور اگر وہ لمبا سفر طے کر کے ان کی دوائی کا بندوبست کرنے گئی تو تیسرا بچہ بھوک کی وجہ سے جان سے جاسکتا ہے  اور پھر تصور میں وہ تینوں کی لاشیں دیکھ رہی تھی،جھری جھری لیکر اس نے اپنے ساتھ لائی ہوئی خوراک تندرست بچے کو دی اور یہ کہہ کر گھونسلے سے باہر نکلی کہ بچوں تھوڑی دیر میرا انتظار کرنا میں اس علاقے کے ذمہ دار سے بات کرکے آتی ہوں۔

  چڑیا علاقے کہ ذمہ دار کے پاس گئی اور اپنی پریشانی بیان کی، مکمل ماجرہ سننے کے بعد یہ جواب  ملا کہ تم اپنے تینوں بچوں کو لے کر میرے پاس آؤ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں بیمار کو ادوایات اور بھوکوں کی خوراک کا بندوبست کروں- یہ بات سن کر چڑیا کچھ حوصلہ ملا اور وہ واپس  گھونسلے میں پہنچی، تینوں بچوں کو پروں میں چھپا کر علاقے کے ذمہ دار کے پاس آن پہنچی جہاں اس کے بچوں کا علاج شروع کر دیا گیا۔ لیکن چند روز کے بعد چڑیا کا ایک بیمار بچہ مر گیا. چڑیا اپنے دو بچوں کے ساتھ واپس اپنے آبائی علاقے میں جانے کے لئے سفر شروع کرنے لگتی ہے تو اسے یہ پیغام ملتا ہے کہ تمہیں ذمہ دار نے بلایا ہے لہذا تم اس سے مل کر جانا ،چہرے پر اداسی لے کر چڑیا جب ذمہ دار کے پاس پہنچتی ہے تو وہ ندامت سے سر جھکائے کھڑا چڑیا سے بولا کہ میری نیت ٹھیک تھی اور میں نے کوشش بھی کی مگر غلطی کہاں ہوئی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ آئندہ ایسے واقعات واقعات رونما نہ ہو۔  چڑیا نے تحمل سے سنا اور  اسے خیرباد کہہ کر واپس جارہی تھی مگر جاتے جاتے اس نے اس سوال کا جواب کچھ اس طرح سے دیا کہ مجھے آپ کی  نیت پر کوئی شک نہیں، آپ نے جو کوشش کی اس کی قدر کرتی ہوں مگر قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا۔

  چڑیا کی یہ کہانی سن کر مجھے کراچی کے سب سے بڑے اسپتال میں پیش آنے والا وہ واقعہ یاد آگیا جس میں دو کلیوں جیسے کم سن بچے کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے. بچوں کے والدین کی طرف سے یہ کہا جارہا کہ بچوں کی اموات معالج کی عدم توجہ کے باعث پیش آئیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر کے اسپتالوں میں تعینات مسیحا آخر قاتل کیوں بنتے جارہے ہیں؟ حاکم وقت کے وہ بڑے بڑے دعوے کہاں گئے جس میں صحت  کے وعدے کے گئے تھے ۔

 چند روز میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث درجنوں بچے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، ماں کی گود میں سینکڑوں میل سفر کرکے علاج کے لئے آنے والے بچے کی لاش باپ اپنے کندھے سے لگا کر جب واپس جاتا ہے تو کبھی کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کتنے رنجیدہ ہو؟ کیا کبھی کسی کو یہ احساس ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھاتے ہوئے کتنے دکھ برداشت کرتا ہے؟ میں وزیراعلی سندھ سے سوال کرتا ہوں کہ سائیں آپ کے بڑے بڑے دعوے اسمبلی کی گھن گھرج اپنی جگہ مگر کئی روز سے جاری ڈاکٹروں کی اس ہڑتال پر اگر آپ توجہ دیتے تو شاید کئی ماوں کی گودیں اجڑنے سے بچ جاتی. اس لئے کہ یہ بھی آپ کی ذمہ داری میں شامل ہے کیونکہ انہی لوگوں نے آپ کو ووٹ دے کر یہ منصب اور ذمہ داری سونپی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.