بیٹی ہوں بوجھ تو نہیں
تحریر: آمنہ سحر
ہاں میں ایک
بیٹی ہوں ،بہن ہوں، ماں ہوں ،لڑکی ہوں بوجھ تو نہیں ۔لڑکی کا دنیا میں پہلا روپ ہی
رحمت ہے جو بیٹی بن کر سب خاندان کے دلوں پر راج کرتی ہے۔بہن بن کر بھائی کی سچی
اور مخلص دوست اور ماں کا بازو بن کر رہ جاتی ہے۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک پختہ اور
ہمیشہ ساتھ نبھانے والی اور جب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ اس کا رتبہ اتنا بلند کر
دیتا ہے کہ جنت کو اٹھا کراس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔
ہمارے پیارے
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں “جس شخص کی بیٹیاں ہوں اس کو برا مت سمجھو اس
لئے کہ میں بھی بیٹی کا باپ ہو”۔
جب کوئی لڑکی
پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ “اے لڑکی تو زمین پر اُتر میں تیرے باپ کی
مدد کرونگا”۔
ان
سب باتوں کے باوجود یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں بیٹی کو ایک بوجھ سمجھا
جاتا ہے، آخر کیوں بیٹیوں کے بارے میں دو باتیں ہر ایک کی زبان پر ہوتی ہیں،
بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں جتنی جلدی اتر جائے اچھا ہے اور بیٹیاں پرایادھن ہوتی ہیں۔
کتنی ہی بیٹیاں
جہیز نہ دینے کی وجہ سے معاشرے کی نظر میں اپنے والدین کے کندھوں کا بوجھ بن کر رہ
جاتی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج ہمارے مسلم معاشرے نے جہیز جیسی لعنت کو طوق بنا
لیا ہے۔ افسوس اس وقت بڑھ جاتا ہے جب لڑکی والوں کو وہ چیزیں بھی بیٹی کو جہیز میں
دینے کے لئے خرید تے دیکھا ہے جو خود ان کے اپنے گھر میں موجود نہیں ہوتیں۔
جہیز کے نام پر
شادی بیاہ میں جو اخراجات ہوتے ہیں وہ ایک غریب بیٹی کے باپ پر صرف بوجھ بن کر رہ
جاتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ لڑکی اپنے والدین سے کچھ مطالبہ کرے تو کر
سکتی ہے کیونکہ یہ تواُس کا پیدائشی حق ہے مگر ہونے والے داماد اور اس کے گھر
والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے فرمائش کریں، یہ تو ایک
قسم کی محض بھیک ہے۔
آج بھی معاشرے میں کئی افراد اس بات کو نہیں
سمجھتے، شادی کے بعد بھی لڑکی کے ساتھ جہیز کے نام پر مارپیٹ کی جاتی ہے اور کہا
جاتا ہے کہ تم ہم پر بوجھ بن کر رہ گئی ہو
اور رشتہ قائم رکھنے کے لیے مزید جہیز کا
مطالبہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات لڑکی اپنے باپ کی عزت بچانے کے لئے اپنی سانسوں کی
لڑی توڑ دیتی ہے۔
“دیکھی جو گھر
کی غربت تو چپکے سے مرگئی
ایک بیٹی اپنے
باپ پہ احسان کر گئی”
بیٹی گھر سے
باہر جانا چاہے تو ہم اسے نہیں جانے دیں گے بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر گھر بٹھا دیں گے
حالانکہ گھر سے باہر کی دنیا میں خطرات ایک لڑکے کے لئے بھی اُتنے ہی ہیں
جتنے لڑکی کے لئے ہیں۔ بیٹا بھی جنسی تشدد
سمیت مختلف مظالم کا شکار ہوسکتا ہے لیکن بیٹے کی جنسی زندگی کے ساتھ خاندان کی عزت
اور غیرت وابستہ نہیں ہوتی چنانچہ بیٹے کے معاملے میں یہ عناصر برداشت کیے جا سکتے
ہیں۔
بیٹی کی جنسی
زندگی کے ساتھ ہم نے اپنی عزت جوڑلی ہے لہٰذا اُس کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے
مگر اِس حفاظت کے نام پر ہم اپنی بیٹی کو کمزور بناتے چلے جاتے ہیں کیوں کہ ہم
اُسے اِس قابل نہیں بناتے کہ وہ اپنی حفاظت خود کرسکے بلکہ ہم اس کی حفاظت کی ذمہ
داری اپنے سر لیتے ہیں۔
ہم یہ بھول
جاتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ساری زندگی اس کے ساتھ اس کی حفاظت کے لیے نہیں رہ سکتے اگر
ہم اسے اپنی حفاظت کے قابل بنا دیں تو وہ زیادہ محفوظ رہے گی اور کسی پر بوجھ بھی
نہیں بنے گی آخر وہ بیٹی ہے بوجھ نہیں۔ اگر ہم بیٹے کی پرورش بھی ویسے ہی کریں جیسے
بیٹیوں کی کرتے ہیں اور وہی روک ٹوک بیٹوں کے ساتھ کریں تو لڑکے بھی دنیا پر بوجھ
بن کر رہ جائیں گے۔
اِسی لئے ہمیں اپنی
بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور حوصلہ افزائی اُسی طریقے سے کرنی چاہیے جس طرح ہم اپنے
بیٹوں کی کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرے پر خود کو بوجھ نہ سمجھیں اور معاشرے میں منفرد
کردار ادا کرسکیں۔
Post a Comment