ابھی نندن پر ایک یوٹرن تو بنتا تھا
تحریر: منصوراحمد
پاکستانی پائلٹ
حسن صدیقی نے جان پر کھیل کر بھارتی جنگی جہاز تباہ کیا ، فورسز نےپائلٹ کو زندہ پکڑا
، پھر کون سا ایسا پریشر تھا جو اس کو اڑتالیس گھنٹے میں ہی چھوڑدیا گیا ۔ ارے اتنی
جلدی تو اپنے شہری جس نے روٹی چوری کی ہو ، پانی چوری کیا ہو، یا سائیکل چوری کی ہو
اس کو نہیں چھوڑا جاتا ، پھر ایک ایسے شخص کو کیسے چھوڑ دیا گیا جو پاکستانی شہریوں
کو مارنے آیا تھا۔
یہ بات کوئی ڈھکی
چھپی نہیں سب ہی جانتے تھے پھر بھی زندہ چھوڑ دیا ۔ کیا امن کا نوبل پرائز لینے کے
لئے ؟ کیا وہ نوبل پرائز مل گیا ؟ کہتےہیں
دنیا بھر میں پائلٹ کو چھوڑنے کے فیصلے کو سراہا جارہا ہے بھائی دنیا تو کرتی
ہی ہے جھوٹی تعریف ۔ وہ کہتے ہیں ناکچھ تو
لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا ہے ،چھوڑو بےکار کی باتوں میں بیت نہ جائے رینا۔
لیجئے بات کہاں
سے کہاں چلی گئی ۔ مطلب بات کا یہ ہے کہ ہم
نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو زندہ صحت مند ہٹا کٹا واپس کیا یہاں تک کہ اس
کی خوفناک مونچھوں کو بھی نہیں چھیڑا ، اور بدلے میں بھارت نے کیا دیا ! جے پور جیل
میں قید شاکر اللہ کو تشدد کرکے قتل کردیا ۔ اس پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی کہ شہید
کا دماغ اور دل ہی غائب کردیا ۔ اس سے زیادہ
سفاکیت اور وحشیانہ پن کیا ہوگا ، اور ہم نے اس پر بھی کوئی احتجاج نہ کیا ۔
ٹھیک ہے امن کی
باتیں اچھی لگتی ہیں ۔ جنگ کوئی بھی نہیں چاہتا ۔ نہ ہی میں جنگ کی حمایت کرتا ہوں
لیکن یہ بھارت کتے کی وہ دم ہے جو سو سال بعد بھی سیدھی نہیں ہوگی ۔ بھارت نے پارلیمنٹ
حملے سے لےکر ممبئی حملے تک ، پلوامہ سے کشمیر تک ہرچیز کا الزام ہمیشہ پاکستان ہی
پر لگایا ہے۔
ہم نے بھارت کا
جاسوس کلبھوش زندہ پکڑا ، ہمیں تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دینا چاہیئے تھا ، لیکن
ہم نے امن کے ہرکارے بن کر اس معاملے کو بھی
ہلکا لیا۔ بھائی اس پائلٹ کے منہ سے اگلواتے وہ کیا منصوبہ بندی کررہا تھا پاکستان
کے خلاف۔ ایک شور ڈالتے بھارت پر پریشر ڈالتے ، بھائی تمھارا پائلٹ ہمارے پاس ہے ،
کم ازکم اس کے بدلے بھارت میں قید اپنا قیدی کرنل حبیب کو ہی مانگ لیتے ، لیکن نہیں
ہم تو امن کا پرچار کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ اپنا ملک دہشتگردی کا شکار ہے اور
ہم ایسے ملک سے امن کی توقع لگا کر بیٹھے ہیں جو امن کا مطلب سمجھتا ہی نہیں ۔
پائلٹ کو چھوڑنے
پر کیا بھارتی میڈیا پاکستان کے قدموں میں گر گیا ؟ انہوں پاکستان کی امن کی کوشش کو
بھی بھارت کا دباؤ قراردیا کہ پاکستان نے گھٹنے ٹیک دئیے بھارت کے سامنے۔ ارے ایک تو
تمھارا پائلٹ زندہ سلامت واپس کیا اور تم احسان فراموش کیا باتیں کررہے ہو، کاش خان
صاحب ابھی نندن کو چھوڑنے کے معاملے میں ایک بار پھر یوٹرن لے لیتے، صرف ایک اور یوٹرن،
لیکن یہاں ان سے یو ٹرن نہیں لیا گیا، کیوں نہیں لیا گیا یہ تو وہ ہی بہتر بتاسکتے
ہیں، لیکن عوام کی یہی خواہش تھی کہ ابھی نندن پر ایک یوٹرن تو بنتا تھا۔
خان صاحب نے اتنے
یوٹرن لیے ایک اور لے لیتے تو کیا چلا جاتا ، بھائی اگر مجرم چھوڑنے کا اتنا ہی شوق
ہے تو ملک کی جیلوں میں نجانے کتنے لوگ قید ہیں، انہیں بھی چھوڑ دیں۔ خیر باتیں اور غصہ تو بہت ہے لیکن کیاکرہی کیا سکتے ہیں سوائے
اپنا دل جلانے کے، تو صبر کریں اور انتظار کریں کے امن کا نوبل پرائز کا، کیونکہ باقی
سب طرف شانتی ہی شانتی ہے ۔
اس تحریر کے
مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی
چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے
کے لیے خبر کہانی کو ای
میل کیجیے۔
مندرجہ بالا
تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے
سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment