وطن کی مٹی گواہ رہنا

Pakistan police on security duty

تحریر : شاہد انجم

شہزادے کو بچپن ہی سے اڑن کھٹولے کی سواری کا شوق تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس شوق میں شدت آتی جارہی تھی، انوکھا لاڈلا اور بہت بڑی سلطنت کا واحد وارث بننے کے بعد اس کے ناز اور نخرے بھی بڑھتے جارہے تھے، قلعہ نما محل  تھا جس میں دھوپ اور چھاؤں بھی شہزادے کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتے  تھے۔

 شروع کے برسوں میں شہزادہ اکیلے ہی زندگی گزارتا رہا مگر ایک وقت ایسا آیا جب اسے زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے دوستوں کی ضرورت آن پڑی ۔ البتہ وہ شاید اچھائی اور برائی کے عنصر سے بہت آگے نکل چکا تھا لیکن اس کی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے بہت سے سفید پوش لوگ اس کے قریب آنے لگے جس میں بعض کے ذاتی مفادات بھی شامل تھے۔

اکلوتا ہونے کی وجہ سے شہزاہ سخت سیکورٹی کے حصار میں رہتا تھا جس کی وہ آئے روز کھلم کھلا نمائش بھی کرتا تھا، اپنی سلطنت میں امن اور سکون ہونے کی وجہ بھی انہی سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتوں کا ذکر کرتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس محل میں ایسی محفلیں سجنے لگیں اور انعام و اکرام کے روز شہزادہ یہ بھول گیا کہ اس کی زندگی کو کتنے خطرات لاحق تھے اور سلطنت میں بسنے والے دیگر لوگوں کے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے والے اس کے محافظوں کو نظر انداز کردیا گیا۔

محفلیں سجانے والوں کی جھولیاں بھر دی گئیں، شہزادے کے قصے کو سن کر مجھے تئیس مارچ کو تمغہ حسن کارکردگی کے پروگرام کی یاد آگئی جس میں ایسے لوگوں کو اسٹیج پر بلا کر ان کی تعریفوں کے پل باندھے گئے اور تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا جن کا کہانی میں کہیں نام ہی نہ تھا۔

مگر افسوس کہ میرا پیارا پاکستان جوکہ دو دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، دہشت گردوں کے سامنے سیکورٹی اہلکاروں و افسران نے سیسہ پلائی دیوار بن کر جام شہادت نوش کیا تاکہ اس ملک کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور جوانوں کو سکون کی نیند میسرآئے ، اور ان ہی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔

بہت افسوس کی بات ہے ملک کے چاروں صوبوں میں کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو تمغہ حسن کارکردگی سے نہیں نوازا گیا، میں آپ سے صرف ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا سانحہ صفورا گوٹھ، شکار پور بم دھماکے،حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے میں ملوثٖ دہشت گرد، کراچی میں فوجیوں کو شہید کرنے والوں، داتا دربار، شاہ نورانی مزار، بری امام سرکار کے مزار پر حملہ کرنے والوں کو کس نے گرفتار  کیا، شہداءکے بچے جب ٹی وی دیکھ رہے ہوں گے تو وہ آپ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟

آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے آپ کی زندگی تو ابھی رنگین ہے لیکن وہ وقت بھی آئے گا جب آپ کی طاقت کا نشہ اترے گا مگر تب رات ڈھل چکی ہوگی اور آپ کی رنگین محفل کا اختتام بھی ہوچکا ہوگا۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. شہزادے کو بچپن ہی سے اڑن کھٹولے کی سواری کا شوق تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس شوق میں شدت آتی جارہی تھی، انوکھا لاڈلا اور بہت بڑی سلطنت کا واحد وارث بننے کے بعد اس کے ناز اور نخرے بھی بڑھتے جارہے تھے، قلعہ نما محل تھا جس میں دھوپ اور چھاؤں بھی شہزادے کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتے تھے۔
    police jobs

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.