پھر ٹرک کی بتی، حد کردی آپ نے
وفاقی وزراء ہر دوسرے تیسرے دن پریس کانفرنس میں شریف فیملی اور زرداری خاندان کی کرپشن کی داستانیں سامنے لاتے ہیں،
نیب حکام میڈیا کے توسط سے ان دونوں
خاندانوں کی کرپشن کے منفرد طریقے بتاکر عوام کو حیران کردیتے ہیں۔ دونوں خاندانوں
نے مبینہ طور پر اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کرکے ملکی معیشت کو تباہی کے
دہانے پر لانے میں مرکزی کردار ادا کیا
ہے۔لیکن ایک عام پاکستانی کا سوال بس اتنا سا ہے کہ اگر مجرم موجود ہیں ، شواہد موجود ہیں تو پھر انتظار کس
بات کا؟ اب تو مسٹر کلین عمران خان کی حکومت ہے، انہیں مقتدر حلقوں کی حمایت بھی
حاصل ہے، نیب بھی آزاد ادارہ ہے، پھر وہ کیا رکاوٹ ہے کہ ان کرپٹ خاندانوں سے قوم
کا لوٹا ہوا مال واپس نہیں لیاجاتا۔
عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ این آر او کرتے ہیں، آپ پلی بارگین
کرتے ہیں یا پھر آپ انہیں اندر کردیتے ہیں، عوام کو تو سکھ چاہیئے ۔ موجودہ حکومت
کے حالیہ چند ماہ میں ایک عام آدمی کے
لیے جینا کتنا مشکل ہوگیا ہے اس کا اندازہ
ٹھنڈے ایوانوں میں فیصلے کرنے والوں کو نہیں۔
آج کل ہزار روپے کے نوٹ کی کوئی وقعت نہیں۔ پسندیدہ سبزی بھنڈی کھانا تو
اب غریب کے لیے خواب بن گیا ہے، لوکی جیسی سستی سبزی بھی سو روپے سے کم کلو دستیاب
نہیں، ایسے میں پندرہ سے بیس ہزار روپے تنخواہ لینے والے کیا کریں؟ گوشت کے بارے
میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ گیس اور
بجلی کے بلوں میں اضافے سے بجٹ پہلے ہی کنٹرول میں نہیں، تو خان صاحب بتائیں کہ اس
صورتحال میں آپ کی ایماندار کابینہ کا لوگ اچار بنائیں؟
ایک طرف مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جارہا ہے دوسری جانب رمضان المبارک سر پر
ہے ، ماہ مقدس میں پاکستانیوں کے اخراجات ویسے ہی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مہینے
میں ثواب کے ساتھ ساتھ وہ منافع بھی خوب کمانے کے چکر میں عام آدمی کو نچوڑلینے
کا ارادہ کرکے گھر سے نکلتے ہیں، تو میرے
جیسا سفید پوش آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس نئے پاکستان سے پرانا پاکستان
بھلا تھا، آپ کی ایماندار اور قابل ٹیم سے وہ بے ایمان، کرپٹ اور نا اہل ٹیم ہی
بہتر تھی۔ شریفوں اور زرداریوں سے لوٹا ہوا مال آپ واپس نہیں لاسکتے ہیں تو اعتراف کرلیں کہ
آپ بےبس ہیں ، خوامخواہ پورے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگارکھا ہے؟
خان صاحب تسلیم کیجیے کہ آپ نے حکومت میں آنے سے پہلے کوئی تیار نہیں کررکھی
تھی۔ ہم مان لیتے ہیں کہ آپ مسٹر کلین ہیں لیکن آپ نے صحیح ٹیم کا انتخاب نہیں
کیا جو آپ کے وژن کے مطابق کام کرسکے اگر آپ نے درست ٹیم کا انتخاب نہیں کیا تو
یہ کس کی نا اہلی ہے؟ خبریں زیرگردش ہیں کہ کابینہ کی پانچ اہم وزارتوں میں ردو
بدل کیا جارہا ہے، صرف پانچ ہی کیوں کیا دیگر وزارتوں کی کارکردگی مثالی ہے؟ ۔
کپتان صاحب اگر تمام کھلاڑی ہی آپ کے نا اہل ہو تو بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی سے کیا
ہوگا؟ حکومت میں آنے سے پہلے ہی سب کو پتہ تھا کہ آپ کے لاڈلے اسد عمر ہی وزیرخزانہ ہوں گے ، یہ پانچ سال سے لوگوں کو پتہ تھا کیونکہ آپ کی ٹیم میں وہ سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور قابل رکن تھے ، لیکن معیشت کا جو حال ہم دیکھ رہے
ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ آپ کی ٹیم کا سب سے نالائق رکن ہی اسد عمر تھا۔ لیکن بات صرف اسد عمر تک محدود رہتی تو ہم صبر
کرلیتے اور یہ امید باندھتے کہ چلو اوپنر کے آؤٹ ہونے کے بعد مڈل آرڈر اور لوئر
آرڈر میں اچھے شاٹ کھیلنے والے بلے باز
موجود ہیں مگر یہاں تو سرے سے کوئی بلے
باز ہے ہی نہیں۔ البتہ ایک کام میں آپ کی ٹیم کا ہر کھلاڑی ماہر ہے۔ گالم گلوچ،
طعنے، الزام تراشی، شور شرابہ، جھوٹے دعوے اور وعدے کرنے میں آپ کا ہر کھلاڑی اپنی مثال آپ ہے۔
اگر نا اہلی صرف آپ کی ٹیم تک محدود رہتی تو ہم پھر بھی برداشت کرلیتے ہیں کہ
چلو کپتان ہمارا سنبھال لے گا لیکن خان صاحب آپ نے تو حدکردی۔ کپتان
صاحب ! ایک طرف ریاست مدینہ اور دوسری طرف
یورپی ممالک کی گورننس کا درس دیتے ہوئے آپ
تھکتے نہیں، گھنٹوں بولتے ہیں آپ، کیا کبھی سنجیدگی سے سوچا ہے کہ ریاست مدینہ کیوں ماڈل ریاست تھی؟ کیا ریاست
مدینہ چلانے والوں کی زندگی کے بارے میں پڑھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ان کی کسی ایک
خوبی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ چلو ریاست مدینہ نہ سہی کیا نیدرلینڈز کے وزیراعظم
کے طرز زندگی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ کیا یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نیدرلینڈز
کے وزیراعظم کی کابینہ میں کون لوگ ہیں ، ان کی قابلیت کیا ہے؟ اگر آپ نے کبھی یہ
غور نہیں کیا تو پھر معاف کردیں قوم کو،، ریاست مدینہ کے بارے میں ہم نے بچپن سے
پڑھا ہے اور یورپی ممالک کی ترقی کا آپ نے ہمیں اتنا بتادیا کہ مزید کی ضرورت
نہیں۔
خیراللہ عزیز کے مزید کالم:
خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment