پاکستانیوں گھبرانا نہیں

منصور احمد


ملک کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے اب تو دل یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے  ’’صاحب  تنخواہ  میں تاخیر سے نہیں مہنگائی سے ڈر لگتا ہے‘‘ لیکن پاکستانیوں گھبرانا نہیں ہے  دو کی جگہ ایک روٹی کھانی ہے ،شربت کی جگہ سادہ پانی پینا ہے اگر مل جائے تو ،،،لیکن گھبرانا  نہیں  ۔

ملک میں حالیہ مہنگائی کا طوفان ہے ،وزیراعظم کہتے ہیں  عوام مزید  تین ماہ تک مہنگائی برداشت کرلیں  پھر ،،،حالات ٹھیک نہیں ہوں گے عوام عادی ہوجائیں گے ۔ جی ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے اس پر حکومتی وزراء کے بیانات عوام کو نرم گرم رکھے ہوئے ہیں۔  ایک وزیر کہتا ہے ’’بھارت پاکستان پر حملے کی سازش کرسکتا ہے‘‘ دوسرے وزیر عوام کو خوش خبری دیتے ہیں ’’نوکریوں کی بارش ہونے والی ہے، اتنی نوکریاں ہوں گی کہ  ایک شخص پانچ پانچ نوکریاں کرے گا ،ٹھیلے والے ،پان والے ایف بی آر کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ٹیکس دیں گے‘‘۔ عوام پریشان نہ ہو تو  کیا کرے ،،،جنگ کی تیاری کرے یا اپنی موجودہ نوکری کو لات مارے،،،سونے پہ سہاگا یہ کہنا  کہ ایسا نہ ہو تو تکہ بوٹی کردیں ،،، وزیرصاحب  کی بات پر جب لوگ ہنسے تو موصوف ناراض ہوگئے ،،،کہتے ہیں خوشی کی خبر دو تو کہتے ہیں نشے میں ۔ اب عوام کس کی بات پر یقین کریں ،،،وزیراعظم کی یا ان  کے قابل وزرا کی؟

ویسے آپس  کی بات ہے میں  نے چھت پر چھتریاں الٹی کرکے لگا دی ہیں ،،،نوکریوں کی بارش ہو تو زیادہ سے زیادہ اس میں پھنس جائیں ،،،لیکن پھر یہی کہوں گا گھبرانا نہیں ہے،،،ہاں پریشان ہوجائیں اپنے سر کے بال نوچ لیں یا خودکشی کرلیں لیکن گھبرانا بالکل نہیں ہے ،،،پبلک ٹرانسپوٹر نے کرایوں میں اضافہ کردیا تو کیا ہوا گھبرانا نہیں ہے، دودھ مہنگا ہوگیا تو کیا ہوا ،،،گیس بجلی پیٹرول سب مہنگا ہوگیا ، ڈالر کو پر لگ گئے  ادویات عوام کی پہنچ سے دور ہوگئیں کوئی مسئلہ ہی  نہیں ہے۔

معاشی پالیسی  نے تھوڑی سی ترقی کی منازل طے کیں ،،،کٹے  اور دیسی انڈوں سے آگے بڑھ کر دیسی مرغیوں اور دودھ دینے والی بکریوں تک پہنچ گئی ،،،باقی معیشت کا کیا ہوا یہ تو کسی کو نہیں معلوم ،،،سو دن مانگے عوام نے دئیے ،،،چھ ماہ مانگے عوام نے دئیے اب مزید تین ماہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں ،،،وزیرخزانہ مزید ڈیڑھ سال کہہ رہے ہیں ،،،عوام کی کمر مہنگائی نے توڑ ڈالی ہے اس پر وزراء کے بیانات کہ ’’پرانے قرضوں کا سود  ہم ادا کررہے ہیں‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ پرانی حکومتوں کا خمیازہ بےچارے عوام کب تک بھگتیں گے؟ کوئی ایک تاریخ ہی دیں۔

جب پالیسیوں پر سوال کیا جائے جواب میں ایک ہی بات کہتے ہیں پرانے قرضے ہیں ،،،،فلاں نے اتنا قرضہ لیا فلاں نے اتنا ۔کوئی پالیسی  نہیں ،،،،اللہ توکل پر ملک چل رہا ہے جتنا قرضہ ستر سالوں میں لیا گیا اتنا قرضہ سات ماہ میں لے لیا گیا ،،،،وہ کون ادا کرے گا؟؟لازمی سی بات ہے آپ اور ہم ،،،،لیکن گھبرانا نہیں ہے ،،،مرجاؤں وہ بہتر ہے لیکن گھبرانے  کی ضرورت نہیں ہے ،،،،تو میری عوام سے مودبانہ التماس ہے ،،،،گھبرانے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔۔۔اچھے وقت کا انتظار کریں ۔۔۔پا نچ ہفتوں کی تو بات ہے ،،،اس کے بعد گھر سے دیکھ بھال کرنکلنا کہیں کسی دودھ یا شہد کی نہر میں نہ گرجائیں ،،،اگر ایسا نہ ہوتو بس یہ سمجھ لیجئے گا تبدیلی واقعی آگئی ،،،،بس نام تبدیل ہوگیا ،،،تبدیلی کا گھبرانا نہیں ہوگیا ہے ،،،باقی رہےنام اللہ کا ،،،،صبر کریں اور اچھے وقت کا انتظار کریں۔


اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔ 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.