سوتن سے دوستی
تحریر : شاہد انجم
رضیہ
اکثر و بیشتر اپنے رشتہ داروں سے محلے والوں سے ملنے جلنے والوں سے یہ برملا شکوہ کرتی
تھی کہ اس کی سوتن کی وجہ سے خاندان میں بہت سے بگاڑ ہوئے ہیں اور آنے والی نسل کی
تربیت بھی اچھی نہیں ہورہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں خاندان اندھیرے
میں ڈوب جائے گا یا پھر اس خاندان کے چشم و چراغ اس قدر بگڑ چکے ہوں گے کہ قریب رہنے
والے لوگ بھی ان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رہے سکیں گے۔
رضیہ
اپنی ان کوتاہیوں کے شواہد بھی اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے تھی رضیہ کی ان باتوں پر گاؤں
اور قریب کے علاقوں کہ ذمہ داران بھی ان باتوں پر یقین رکھتے تھے بلکہ رضیہ ان شواہد
کو زبان زد عام کرنے کے لئے شواہد کی ترسیل کرنے کی بات بھی کرتی تھی مگر اچانک ایک
روز رضیہ کی طرف سے ببلی کو رات کے کھانے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔
دعوت
نامہ دیکھ کر ببلی جزوی طور پر مسکرائی اور کہنے لگی کہ یہ تبدیلی کیسے مگر وہ یہ جانتی
تھی کہ رضیہ اس سے کہیں زیادہ شوہر کے قریب ہے لہذا اس نے اس دعوت کو قبول کرنے میں
دیر نہیں کی۔ وجہ کیا تھی یہ صرف رضیہ جانتی تھی کیوں کہ رضیہ بھی اپنے بچوں کی وہ
تربیت نہیں کر پائی جو اسے کرنی چاہیے تھی۔ اس لئے وہ بچے نا خلف ہوچکے تھے اور رضیہ
سوتن کے بچوں کے ساتھ ملکر اس سلطنت پر اپنی حاکمیت قائم رکھنا چاہتی تھی جسکے لئے
وہ ہر سودا کرنے پر تیار تھی۔
رضیہ
اور ببلی کی یہ کہانی سن کر مجھے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی وہ بات یاد آگئی جس
پر انہوں نے ایم کیو ایم کے وزراء کو شریف النفس کہا اور اس میں انہوں نے اس بات کی
وضاحت بھی کی کہ پہلے میں ان سے بہت گھبراتا تھا لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ ایم
کیو ایم کے لوگ بہت سمجھدار ہیں بہت مہذب ہیں اور میری کابینہ میں ان سے زیادہ محنتی
کوئی نہیں ہے۔
محترم
جناب وزیراعظم عمران خان صاحب آپ کو ماضی کا کچھ بھی یاد نہیں ہے، وہ صندوق جو شواہد
سے بھرے ہوئے تھے کیا وہ چوری ہوگئے یا پھر کراچی میں ہزاروں افراد کے قتل کا الزام
کہاں چلا گیا؟ کیا آپ بارہ مئی بھول گئے؟ کیا سانحہ بلدیہ بھول گئے؟ کیا آپ زہرہ شاہد
کا قتل بھی بھول گئے اور اگر آپ یہ تمام حالات و واقعات کو نذرانداز کر رہے ہیں تو
پھر یاد رکھیں کراچی کے عوام آپ کو بھی انہیں الفاظ سے یاد کریں گے جس طرح ماضی کے
حکمرانوں کو یاد کیا جاتا ہے یا پھر آپ کو رضیہ کی طرح اپنے وزیروں پر بھروسہ نہیں
رہا اور ان کی نا اہلی کہ ڈر سے آپ اتحادیوں کو گلے لگا رہے ہیں۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
loolzzz thats so funny
جواب دیںحذف کریںnews