اپوزیشن کا گٹھ جوڑ اور جماعت اسلامی کا کردار


عمران خان نے قوم کو مایوس کیا۔ابتدائی نو ماہ میں  حکومت توقعات پر پورا نہ اترسکی۔معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ حکومت نے جو وعدے کیے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوسکا۔ ہم ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا طعنہ نہیں دیں گے اسے خان صاحب کا جذباتی بیان سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت کی مجموعی طور پر اب تک کی کارکردگی مایوس کن ہے۔  ایسے میں منتشر اپوزیشن کو سیاست کا موقع مل گیا۔مقدمات میں گھرے پی پی اور لیگی قائدین نے موقع کو غنیمت جانا اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پہل کرتے ہوئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا۔

 افطار ڈنر کے نام پر سجے سیاسی دسترخوان پر اپوزیشن کے تقریباً تمام اپوزیشن رہنما شریک تھے،  اہم بات اسیر  لیگی قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کی شرکت  تھی جنہوں نے طویل خاموشی  توڑتے ہوئے کھل کر اظہار خیال کیا۔ افطار ڈنر کے بعد مشاورتی  اجلاس بھی ہوا جس میں اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عید کے بعد  آل پارٹیز کانفرنس ، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج پر اتفاق کیا گیا ۔ملک کو قرضوں میں ڈبونے والی پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے نئے قائدین اب حکومت کے خلاف  احتجاج کریں گے۔

اس اجلاس میں ن لیگ کے رہنماوں کی بھرپورشرکت تو سمجھ میں آنے والی ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کا دکھ ایک ہے ، دونوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں، نوازشریف جیل میں ہیں، شہبازشریف ضمانت پر ہیں، حمزہ شہباز ، خواجہ برادران اور دیگر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔یہی کچھ حال جیالوں کا ہے۔ جعلی اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل میں سابق  آصف زرداری  اپنی ہمشیرہ کے ساتھ کبھی کراچی تو کبھی اسلام آباد  کی نیب عدالتوں میں پیش رہے ہیں ، مراد علی شاہ  کے خلاف بھی  مقدمات ہیں تو دونوں جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈال کر ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

 اپوزیشن کی اس بیٹھک میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی شرکت بھی سمجھ میں آنے والی ہے۔ موصوف پہلی بار پارلیمنٹ سے باہر ہیں، ان کی جماعت نہ صرف وفاق بلکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی نہ صرف یہ کہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں بھی ان کا کردار سکڑ گیا ہے ، ان کا ایجنڈا اور ان کی سوچ تو بالکل واضح ہے انہوں نے روز اول سے ہی اس حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ہر صورت  اس حکومت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں چاہے اس سے سیاسی بحران ہی پیدا کیوں نہ ہو۔ اے این پی، بی این پی مینگل اور پشتونخوا میپ کے بھی اپنے تحفظات ہیں۔

اجلاس میں کسی کی شرکت پر اگر سوال اٹھتا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ اگر چہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود تو بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں شریک نہیں ہوئے لیکن لیاقت بلوچ کی قیادت میں پارٹی کے وفد نے شرکت کی۔ جس کے وقت اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد م میں سرجوڑ کر بیٹھی تھیں  اسی وقت سراج الحق صاحب کراچی کے علاقے لیاری میں  استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ سابقہ حکومتوں پر بھی تنقید کے نشتر برسارہے تھے۔ سراج الحق صاحب  مہنگائی،بےروزگاری، معیشت کی زبوں حالی اور آئی ایف ایم سے معاہدے کے خلاف عید کے بعد کراچی سے چترال تک  تحریک کا عندیہ دے چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی موجودہ حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو بھی معیشت  کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں وہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے قائدین کو کرپٹ کہتے رہے ہیں بلکہ اب بھی کہتے ہیں ایسے میںسوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ اس مبینہ طور پر کرپٹ ٹولے کے ساتھ مل  کر  حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی کو عوام کا درد نہیں بلکہ ان کی اپنی مجبوریاں ہیں  تو کیا جماعت اسلامی اس بار بھی حکومت کے خلاف تحریک میں صف اول دستہ بنے گی؟

ہرذی شعور شخص سمجھتا ہے کہ معیشت کی بربادی اور مہنگائی میں صرف موجودہ حکمران ہی قصور وار نہیں بلکہ یہ ماضی کی حکومتوں کی وہ کرپشن ہے جس نے ملک کو اس حال تک پہنچایا  تو کیا جماعت اسلامی معیشت کی تباہی میں برابر کی ذمہ دار ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلائے گی؟

میرے خیال میں جماعت اسلامی کا ایک واضح مؤقف سامنے آنا چاہیئے کہ کیا وہ ایک نا اہل حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے کرپٹ مافیا کا ساتھ دے گی  یا اپوزیشن کی اس بیٹھک میں وفد بھیجنے کا مقصد محض جذبہ خیرسگالی تھا۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.