وٹامن سی یا زہر؟


PTI government fails to fulfil commitments made during election campaign

تحریر: شاہد انجم

سناٹا چھارہا ہے، اندھیرے بڑھتے جارہے ہیں، مایوسی گناہ ہی سہی مگر ہر کوئی خود پر مسلط کررہا ہے، پانی میں زہر ہے پیاسا بھی ہوں پیوں تو مروں نا پیوں تو بھی مروں، ہر عمر کے لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں-

دوائی کا چمچ منہ میں انڈیلتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ نسوں میں کسی نے زہر بھر دیا ہو، اسکول، اسپتال خالی ہورہے ہیں، تھوک مارکیٹیں ویرانی کا منظر پیش کررہی ہیں جبکہ محلے میں قائم دکانوں پر بھی گاہکوں کا ایسے ہی آنا جانا ہے جیسے دور دراز کے کسی گاؤں میں بجلی کی فراہمی ہو یا پھر تھر کے باسیوں کے لئے بارش کی بوند، کوئی سننے والا نہیں کس سے فریاد کریں؟ کس کو اپنا دکھ سنائیں؟ ایک دوسرے کےچہروں کو دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ماؤں نے گود سے بچے اتار دیئے ہیں، اب تو باپ بھی بچے کو انگلی تھما کر بازار کا رخ نہیں کرتا۔

یہ صورتحال دیکھ کر مجھے موجودہ حکومت کی پالیسیاں دل و دماغ پر تلوار کے وار کرتی ہوئی لگ رہی ہیں، حکومت نے آنے سے قبل کئی سال تک ملک کے اہم چوراہوں، شاہراہوں، جلسہ گاہوں میں یہ نعرے لگائے تھے کہ ہم اس ملک کو تین ماہ میں ایسا خوشحال بنا دیں گے کہ یہاں صحت، تعلیم اور پینے کے پانی کی سہولیات عام لوگوں تک میسر ہوں گی، کوئی بھوکا نہیں سوئے گا اور نہ ہی مایوس ہوگا ۔

البتہ ایسا لگ رہا ہے کہ جو پیکنگ ہمیں دکھائی گئی تھی اس پر وٹامن سی لکھا تھا مگر اسے کھولا تو پتہ چلا کہ یہ تو زہر کی گولی ہے جسے کھا کر میں کتنے وقت زندہ رہ سکتا ہوں؟ اس کا اندزاہ موجودہ حالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔  آج ڈاکٹر کے پاس جانے والا مریض یا تو دوسری بار جانے کی جرات نہیں کرتا ، اگر بدقسمتی سے چلابھی جائے تو ڈاکٹر کی فیس دینے کے بعد اس کی تجویز کردہ دوائی اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ مریض اسے خرید نہیں سکتا ۔

سستی سواری رکھنے والا شہری اب ڈاکٹر کے مشوارے پر عمل کرکے پٹرول حاصل کرنے کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دے رہا ہے مگر حکومتی نمائندے آج بھی اس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں  میں مہنگائی ہوگی-
عوام کہنے پر ہیں مجبور کہ تم تو بن گئے وزیر،مشیر اور پوری قوم کو بنا دیا ہے فقیر!





اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.