روزے کی حرمت

Pakistani TV shows in the month of Ramzan

تحریر: شاہد انجم

اسلامی معاشرے میں بازار کو ناپسندیدہ جگہ قرار دیا گیاہے، سب سے اچھی جگہ مسجد ہے جہاں انسان اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہے اور اس سے زیادہ محفوظ جگہ بھی کوئی نہیں ہوتی۔اپنے بیٹے جس کی عمر  بارہ سال ہے کسی کام کے سلسلے میں بازار جانا پڑاتو اس نے گھر سے نکلتے ہوئے عصر کی اذان سنی اور مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مسجد جا کر نماز ادا کی جائے، ماہ صیام ہے لہذا افطار میں ابھی وقت باقی ہےاشیا جوکہ ہم نے خریدنی ہےوہ اتنی ضروری بھی نہیں ہے کہ فوری طور پر ہمیں گھر لیجانا پڑے۔

بیٹے کی بات سن کر میں نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہو چلو پہلے نماز ادا کرتے ہیں ہم دونوں عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوئے اور کچھ وقت میں مسجد کا اندرونی حصہ اور صحن نمازیوں سے بھر گیا۔ نماز کے اختتام پر دعا کے وقت ایک مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ ہماری مسجد میں چند علماء دوسرے علاقوں سے آتے ہیں وہ ہمیں رمضان المبارک میں دین کے بارے میں کچھ باتیں بتانا چاہتے ہیں اعلان کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان علماء کرام کی بات سن کر جائیں گے۔

علماء کرام کی طرف سے روزے کی فضیلت اور اسلام کے اصولوں پر زندگی گزارنے کے بارے میں باتیں بتائی جارہی تھیں، جنہیں  ہم بہت غور سے سن رہے تھے جس میں خاص طور پر اپنے نفس اور خواتین کے پردے کے بارے میں بہت اہم باتیں بتائی گئیں۔ زندگی کیسے گزارنی ہے اور کس سادگی کے ساتھ معاشرے میں رہنا ہے یہ تمام باتیں مسجد میں موجود نمازی سن رہے تھے کہ اچانک دوبارہ اعلان ہوا کہ افطار میں اب وقت کم رہ گیا ہے اور باقی باتیں کل اسی وقت علماءکرام فرمائیں گے۔

ہم دونوں مسجد سے باہر نکل رہے تھے کہ چندلوگ دروازے پر  کھڑے کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ آج ہمارے ساتھ روزہ افطار کریں ہمیں اچھا لگےگا  ان  کی اس بات پر چند لوگ رکے باقی اپنے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے  جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے  روزے کی فضیلت کے بارے میں علماء کی باتیں ہمارے دماغ میں اس طرح سے سرائیت کرچکی تھیں کہ دوسرے روز بھی جانے کے لیے  دل مچل رہا تھا۔  

اب تو افطار میں آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا  اور دسترخواں بھی تقریباً اپنے جلال پر تھا  اس پر روزہ افطار کرنے کے لیے تمام چیزیں سج چکی تھی کہ گھر والوں نے کہا سب دسترخوان کے اطراف میں بیٹھ جاؤ اور ٹیلی ویژن کھول دو تاکہ اذان مغرب اور روزے کا پتہ چل جائے  ٹیلی ویژن کھولا تو اس کی اسکرین پر جو  چہرے نمودار ہوئے تو ایسا لگا کہ ماہ صیام نہیں ہے بلکہ ہمارا میڈیا ہمیں کسی اور سبق کی طرف لے جارہا ہے۔

میرے بیٹے نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ جانتے ہیں جو خاتون اس وقت اسکرین پر ہے یہ کون ہے۔میرے جواب دینے سے قبل ہی اس نے مجھے یہ یاد دلادیا کہ کل میں نے ایک موبائل فون پر اس کا گانا دیکھا جس میں یہ بہت مختصر کپڑوں میں تھی۔جب میں نے اس کے ماضی پر نظر ڈالی تو یہ لاتعداد فلموں اور ڈراموں میں بحیثیت  اداکارہ اپنے جوہر دکھا چکی تھی۔تو آپ مجھے بتائیں کہ علماء کرام نے جو باتیں ہمیں بتائی تھیں کیا وہ اپنے اسلامی زندگی کا توازن قائم رکھنے کے لیے بہتر تھیں یا کہ ٹیلی ویژن پر بیٹھی یہ خاتون جس کے سر پر دوپٹہ تک نہیں ہے یہ صحیح بتارہی ہے۔

میں نے فوری طور پر چینل تبدیل کرنے اور اس کا دھیان ہٹانے کی ناکام کوشش کی تو دیکھا کہ دوسرے چینل پر بھی کچھ اسی طرح اسلام پر لیکچر دیا جارہا تھا ۔بہر حال یہ کوشش کرتےکرتے  میں نے تمام ٹی وی چینلز تبدیل کرکے دیکھے مجھے اس کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیا۔

روزہ افطار ہوگیا ہم نماز مغرب ادا کرنے کے بعد نماز تراویح کے لیے چلے گئے اوراگلے  روزے کی تیاری تھی کہ سحری کے وقت بھی دسترخوان پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن کی طرف نظر ڈالی تو روزے کی فضیلت کے بارے میں کچھ ایسےلوگ  ہی اسٹوڈیو میں موجود تھے۔کیا ملک میں کوئی عالم دین کوئی حافظ قران کوئی دارالعلوم نہیں ہے یا پھر لگتا ہے کہ کسی ٹی وی چینل کو اس بارے میں معلوم ہی  نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں رہتے دوسری حکومت کی جانب  سے ٹی وی چینل پر لٹکائی گئی تلوار کی صورت میں پیمرا کو معلوم نہیں ہے کہ ہمارا ملک کس نام سے وجود میں آیا اور اگر نہیں معلوم تو پھر یہاں  بہت بڑا سوال پیدا ہوتا  ہے ک ہمارا  مادر پدر آزاد میڈیا  ہمارے معاشرے کو کس طرف لے جانا چاہتا ہے کیا انہیں کوئی خوف خدا نہیں کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے ذہن میں کیا نقش چھوڑرہے ہیں اور سب کچھ  معلوم ہوتے ہوئے بھی  ایسا ہورہا ہے؟




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.